کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 70
کیسے ہوگی؟ یہ ممکن نہیں ہے کہ حاکمیت ایک ہی ہو جائے یعنی ساری دنیا کا حاکم ایک ہی ہو؟ یا پھرتوحید ِحاکمیت سے مراد کیا ہے؟ توحید ِحاکمیت کا قول ایک بدعتی اور منکر کا قول ہے۔ اس قول کے صاحب کا انکار کیا جائے گا اوراس سے کہا جائے گا کہ اگر اس سے تیری مراد حکم ہے تو حکم دینے کا اختیار تو اللہ ہی کی ذات کو ہے اوروہ توحید ِربوبیت میں داخل ہے کیونکہ ربّ سبحانہ و تعالی ہی خالق، مالک اور تمام اُمور کا مدبر ہے۔ پس توحید ِحاکمیت کی علیحدہ قسم بنانا بدعت اور گمراہی ہے۔جی ہاں !‘‘ http://www.alathar.net/esound/index.php?page=geit&co=432 شیخ صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ نے اس بحث کو اُجاگر کیا ہے کہ توحید ِ حاکمیت سے کیا مراد ہو سکتی ہے۔ توحید ِحاکمیت کا ایک مفہوم تو یہ ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ حاکم اور شارع اللہ ہی کی ذات ہے یعنی حکم دینے کا اختیار صرف اللہ ہی کو ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: إن الحکم إلا ﷲ۔ اِس پہلو سے یہ توحید ِ ربوبیت میں داخل ہے کیونکہ حکم جاری کرنا اللہ کا ایک فعل ہے اور اس کے اس فعل میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ توحید حاکمیت کا ایک دوسرا مفہوم شیخ بن باز رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ اس سے مراد بندے اپنے افعال میں اللہ ہی کو حاکم قرار دیں ۔ اس اعتبار سے یہ توحید ِاُلوہیت میں داخل ہے۔ یہ دونوں پہلو ہی مطلوب ہیں لہٰذا توحید ِحاکمیت ایک پہلو سے توحید ِربوبیت اور دوسرے پہلو سے توحید اُلوہیت میں داخل ہے۔ ٭ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا یہ ہے کہ بعض افراد نے اپنی سیاسی تعبیرات کو شرعی معنی پہنانے کے لیے توحید ِحاکمیت کی اصطلاح وضع کی ہے۔ علامہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے ایک لیکچر میں فرماتے ہیں : ’’الحاكيمة فرع من فروع توحید الألوهية والذین یدندنون بھذہ الكلمة المحدثة في العصر الحاضر، یتخذون سلاحًا لیس لتعلیم المسلمین التوحید الذي جاء بہ الأنبیاء والرُّسل کلّھم و إنما سلاحًا سیاسیًّا۔‘‘ ’’حاکمیت، توحید ِ اُلوہیت کے فروعات میں سے ایک فرع ہے جو لوگ عصر حاضر میں اس کلمے کو لیے دندناتے پھرتے ہیں، وہ اس اصطلاح کے ذریعے مسلمانوں کو اس توحید کی تعلیم نہیں دینا چاہتے جسے تمام انبیاء و رسل لے کر آئے بلکہ یہ لوگ اس اصطلاح کو سیاسی اسلحے کے