کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 68
کا نہیں ہے بلکہ سوال درحقیقت یہ ہے کہ سلف صالحین نے توحید کی جو تین اقسام بیان کی تھیں کیا وہ توحید ِ حاکمیت کو بھی شامل تھیں یا نہیں ؟ اگر نہیں تو سلف صالحین کا تصورِ توحید ناقص تھا اور اگرہیں تو ایک نئی اصطلاح وضع کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ذیل میں ہم اس موضوع پر اہل سنت کے علماء کے اَقوال کی روشنی میں بحث کر رہے ہیں : پہلا موقف: توحید ِحاکمیت کی اصطلاح استعمال کرنے کے بارے میں سلفی علما کے تین موقف ہیں ۔ بعض علما کا کہنا یہ ہے کہ اس اصطلاح کا استعمال جائز ہے کیونکہ ’’لا مشاحة في الإصطلاح ‘‘ ایسے علماء کی تعداد بہت ہی کم ہے جن میں نمایاں نام شیخ عبد الرحمن بن عبدالخالق یوسف کا ہے جنہوں نے اپنی کتاب’الصراط‘ میں توحید ِحاکمیت کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ دوسرا موقف: دوسرا موقف سلفی علماء کی ایک معتد بہ جماعت کا ہے کہ توحید کی تین ہی اقسام ہیں : توحید حاکمیت بھی در اصل توحید اُلوہیت یا توحید ِربوبیت ہی کا ایک پہلو ہے۔ لہٰذا نئی اصطلاح وضع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سلف کی اصطلاحات جامع مانع ہیں اور انہی پر اکتفا کر نا چاہیے۔ ٭ سابقہ مفتی اعظم سعودی عرب شیخ بن باز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’لیست أقسام التوحید أربعة وإنما ھي ثلاثة کما قال أھل العلم وتوحید الحاكيمة داخل في توحید العبادۃ ۔ فمن توحید العبادۃ الحکم بما شرع ﷲ، والصلاۃ والصیام والزکاۃ والحج والحکم بالشرع کل ھذا داخل في توحید العبادۃ‘‘ ’’توحید کی اقسام چار نہیں ہیں بلکہ تین ہی ہیں جیسا کہ اہل علم کا کہنا ہے۔ توحید ِحاکمیت دراصل توحید ِعبادت(اُلوہیت) میں داخل ہے۔ پس توحید ِعبادت(اُلوہیت) میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے کیے جائیں ۔ نماز، روزہ، حج، زکوۃ اور اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے کرنا یہ توحید ِعبادت میں داخل ہے۔‘‘ http://www.binbaz.org.sa/mat/4719 شیخ عبد اللہ بن الغنیمان اور شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ الراجحی نے بھی یہی موقف بیان