کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 67
فرانسیسی یا امریکی قوانین وغیرہ جزوی طور پر نافذ ہیں ۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کی آخری خلافت، سلطنت ِعثمانیہ میں بھی سواے مدنی قانون یعنی مجلّة الأحکام العدلية کے بقیہ تمام قوانین مثلاً فوجداری قانون، قانونِ تجارت، قانون اَراضی وغیرہ فرانسیسی و یورپین قوانین سے ماخوذ تھے اور انہی کے مطابق عدالتوں میں فیصلے ہوتے تھے۔ پس تقریباً تمام مسلمان ممالک میں نہ تو سو فی صد غیر شرعی و مغربی قوانین نافذ ہیں اور نہ ہی مکمل اسلامی و شرعی قوانین، بلکہ یورپی اور اسلامی قوانین کا ایک ملغوبہ ہے جو اکثر و بیشتر مسلمان ممالک میں نافذ العمل ہے۔
۱۹۲۴ء میں خلافت ِعثمانیہ کے سقوط کے بعد مسلمان اُمت میں خلافت کی بحالی کے لیے اسلامی تحریکوں کا آغاز ہوا۔ ان تحریکوں نے اپنے موقف میں زورپیدا کرنے کے لیے ’توحید حاکمیت‘ کی اصطلاح استعمال کی تا کہ عوام الناس کو یہ باور کرایا جا سکے کہ غیر اللہ کے قوانین کا نفاذ شرک ہے، لہٰذااُ نہیں یورپین و مغربی قوانین کے نفاذ کے خلاف اور اسلامی قوانین کی بحالی کے لیے اپنا تن من دھن لگا دیناچاہیے۔شروع میں تو یہ اصطلاح توحید کی باقی اقسام کی طرح ایک قسم کے طور پر بیان ہوتی رہی لیکن آہستہ آہستہ اس کے استعمال میں یہ غلو پیدا ہوا کہ بعض مفکرین نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ لا إلہ إلا ﷲ کا معنی لاحاکم إلا ﷲ ہے اور انسان کی تخلیق کا مقصدروے ارضی پر اللہ کی حاکمیت قائم کرنا ہے، نہ کہ اس کی عبادت کرنا۔یہاں تک بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض سلفی مفکرین کے نزدیک بھی سلف کی بیان کردہ توحید اُلوہیت، توحید ِربوبیت اور توحید اسماء و صفات پس منظر میں چلی گئیں اور اُنہیں اسلام و کفر کا معیار صرف توحید ِحاکمیت ہی میں نظر آنے لگا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حاکم صرف اللہ ہی کی ذات ہے۔اور یہ کوئی نئی بحث نہیں ہے بلکہ اُصولِ فقہ کی قدیم و جدیدکتابوں میں حکم کی اَبحاث کے ذیل میں ’حاکم‘ کے عنوان کے تحت اس موضوع پر مفصل مباحث موجود ہیں ۔ علاوہ ازیں عقائد کی کتب میں بھی یہ بات مختلف عنوانات کے تحت موجود ہے کہ غیر اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے کرناکفر، ظلم اور فسق ہے۔ اَصل سوال اللہ کے حاکم ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف