کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 59
ضرورت نہیں، صرف نضح اور رشّ کے عمل سے گزارنا کافی ہے۔
یہ مؤقف امام مالک[1]،امام شافعی[2]،امام اوزاعی،اور ابن العربی کا[3]ہے ۔
3. بچے اور بچی خواہ شیر خوار ہوں، دو نوں کا پیشاب مکمل نجس ہے اور دونوں کو دھونا ہی لازم ہو گا،دونوں یا کسی ایک کو نضح یا رشّ کے عمل سے گزارنا کافی نہ ہوگا۔
یہ موقف احناف کا ہے اور مالکیہ میں سے بھی بہت سے یہی رائے رکھتے ہیں ۔[4]
ان کی دلیل یہ ہے کہ بعض احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نضح کا لفظ غسل کے معنی میں بھی استعمال کیا ہے۔[5]
لیکن اس کا جواب ’طفل رضیع‘ والی حدیث سے اپنے آپ مل جاتا ہے کہ کسی بھی لفظ کو قریب تر معنی کے لیے یا غیرموضوع لہ کے لیے استعارۃً استعمال کیا جاسکتا ہے، البتہ اگر اس کی تصریح یا تفسیر اسی جملے میں موجود ہو تو اسے قیاس کے ذریعے متعین کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ چنانچہ سیدہ اُمّ قیس اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما کی احادیث میں لم یغسل کے الفاظ نے نضح یا رش کے معنی خود متعین کردیے ہیں اور یہ راوی یعنی متکلم کے ہی الفاظ ہیں جبکہ فقہ حنفی میں اسے ہی ’مفسر‘ کہا جاتا ہے اور اس پر بغیر کسی احتمال کے عمل کرنا لازم ہوتا ہے۔
ایسے ہی حضرت علی اور حضرت اُمّ الفضل رضی اللہ عنہما کا عمل بمقابلہ بیان ہو رہا ہے اور جب ایک لفظ کسی دوسرے لفظ کے مقابلہ میں ہو تو بھی یہ معنوی تصریح کے لیے کافی ہوتا ہے، لہٰذا حنفیہ کا یہ موقف انتہائی کمزور ہے اور ان کی دلیل جو کہ نضخ یا رش کے معنی میں دی گئی ہے، وہ ناقابل اعتبار ہے۔ ان احادیث میں ہی واردہ کلمات سے ہی اس بات کی توضیح ہو رہی ہے کہ یہاں نضخ اور رش سے مراد غسل نہیں ہے ۔
اسی طرح جن لوگو ں نے بچے یا بچی ہر دو کے پیشاب کے لیے نضح اور رش کو کافی قرار دیا ہے، ان کی دلیل بھی کمزور ہے اور اوپر کے اُصول کے تحت یہ موقف بھی مردود ہے۔ البتہ پہلا موقف کہ بچہ اور بچی کے پیشاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرق کیا ہے،حدیث کے