کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 58
(( إنما یُنضح من بول الذکر ویغسل من بول الأنثٰی )) [1]
اس موضوع پر یہ اور دیگر متعدد احادیث اس امر پر متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شیر خوار بچے کے پیشاب کو محض چھینٹے مارتے تھے اور شیر خوار بچی کے پیشاب کو دھویا کرتے تھے۔
روایات میں یہ صراحت سے موجو د ہے کہ ایسا فرق صرف عرصۂ رضا عت میں روا رکھا جاتا ہے۔یہاں (( لم یطعم طعامًا)) سے مراد دودھ،کھجور اورشہد __ جس سے گھٹی دی جاتی ہے__ کے علاوہ دیگر غذائیں ہیں ۔[2]ظاہری بات ہے کہ ان غذاؤں کا استعمال عرصۂ رضاعت کے ابتدائی چند ماہ میں ہی ہوتا ہے۔
اَحادیث میں وارد الفاظ کے معانی
نَضَحَ کا معنی کپڑے پر پانی یا خوشبو چھڑکنا ہے۔ اس کا معنی ٹپکنا بھی آیا ہے۔
اور رَشَّ [3]کا معنی پانی کا چھڑکنا یا آسمان سے بوندیں آنا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ان دونوں الفاظ کے باہم مخالف فی المعنی ہونے کا انکار کرتے ہیں ۔ان کے نزدیک (( رش)) تنقیط المآء اور (( نضح)) صبّ الماء کو کہتے ہیں ۔[4]اس سلسلے میں وہ مختلف احادیث سے استدلال کرتے ہیں جن میں صب الماء کے الفاظ لم یغسل کی تصریح کے ساتھ وارد ہوئے ہیں ۔[5]
فقہی اختلاف
مذکورہ بالا مرویات اور معاشرتی مسا وات نیز خوراک میں فرق نہ ہونے کی بنا پر بچے اور بچی کے پیشاب کی نجاست کے حکم پر اختلاف ہوا اور فقہا کے تین موقف سامنے آئے :
1. شیر خوار بچے کے پیشاب پر چھینٹے مارنا کافی ہے جب کہ بچی کا پیشاب اس عرصہ میں دھویا جائے گا۔ یہ موقف حضرت علی رضی اللہ عنہ،حسن بصری، امام زہری اورعطا ء کا ہے۔[6]
2. بچے اور بچی دونوں کے پیشاب کو عرصۂ رضاعت کے ابتدائی مہینوں میں دھونے کی