کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 55
ﷲِ﴾ ہے۔[1] جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ اُسے آیت ِربا اور آیت دَین کے درمیان لکھ لو۔‘‘[2] لہٰذا قرآنِ کریم کو اسی ترتیب کے مطابق لکھنا، اسی کے مطابق تلاوت کرنا ضروری ہے۔ کسی اور ترتیب کے مطابق اُسے مرتب کرنا جائز نہیں ہے۔ اسی حکمت اور مصلحت کے تحت ترتیب نزولی سے متعلقہ روایات بہت کم تعداد میں محفوظ ہیں ۔ 4. مستشرقین یورپ کی ترکتازیاں لیکن چونکہ مستشرقین یورپ نے جن میں سے اکثریت کا تعلق یہودیوں اور عیسائیوں کی مذہبی یا سیاسی جماعتوں یا گروہوں سے ہے، قرآن کریم اور ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض برائے اعتراض کرنے کا عہد کررکھا ہے، لہٰذااُنہوں نے قرآنِ کریم کی موجودہ ترتیب کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کوشش اور سعی قرار دیتے ہوئے اس پر کئی طرح کے اعتراضات کئے ہیں اور قرآن کریم کی موجودہ ترتیب کی جگہ اپنے پاس سے، اور محض چند کمزور روایات پر یا اپنی ناقص اور کمزور عقل و دانش پر مدار رکھتے ہوئے، قرآنِ کریم کی نئی ترتیب دینے کی کوشش کی ہے اور بزعم خویش اس طرح اُنہوں نے قرآنِ کریم کی خدمت کرنے کا جھوٹا اور باطل دعویٰ کیا ہے۔ اس پر صرف یہ تبصرہ کیا جاسکتا ہے: نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا اس حوالے سے گذشتہ اور اس سے پیوستہ صدی میں بہت سے مستشرقین نے قلم اٹھایا اور قرآنِ کریم کو اپنے زعم اور اپنے گمان کے مطابق مرتب اور مدوّن کرنے کی کوشش کی۔اس حوالے سے خاص طور پر ولیم میور اور آرتھر جیفری کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔ جنہوں نے قرآنِ کریم کی سورتوں اور کئی ایک جگہ آیات کو تقدیم و تاخیر کرکے پیش کرنے کی جسارت کی ہے، لیکن یہ لوگ، جن کی اپنی مذہبی کتاب کا یہ حال ہے کہ اب تک یہ طے نہیں ہوا کہ یہ کتاب عبرانی میں تھی یا سریانی میں اور یہ کہ ان کتابوں کے مؤلفین کون تھے، ضعیف اور کمزور روایات یا اپنے فاسد قیاس کے ذریعے مسلمانوں کو قرآنِ کریم کی ترتیب سکھاناچاہتے ہیں ۔اسی لیے مسلمانوں نے ان کی ان کوششوں کو محض سعی لاحاصل قرار دیتے ہوئے اسے مکمل طور پر ردّ کردیاہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ان دشمنانِ اسلام کی شرارتوں سے محفوظ رکھے۔ آمین!