کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 54
(ج) ترتیب ِنزولی کی حیثیت پھرچونکہ قرآن کریم کا نزول اللہ ربّ العزت کی طرف سے ہوا ہے، اوراسی نے تاقیامت اس کی حفاظت و صیانت کاپختہ وعدہ کیا ہے، اسی لیے اس نے قرآنِ کریم کے متعلق انہی باتوں کی حفاظت کااہتمام کیا، جن باتوں کی اُمت کو قرآن کریم کی تلاوت اور اس کی حفاظت کے لیے ضرورت پیش آسکتی تھی جبکہ ایسی باتیں جن کااس مقصد سے تعلق نہیں تھا، ان باتوں کو خود ہی لوگوں کے دلوں اور تاریخ کے اَوراق سے محو کردیا، تاکہ خوامخواہ کے مسئلے اور خوامخواہ کے فتنے پیدانہ ہوں، جن میں ایک ’ترتیب ِنزولی‘ کا مسئلہ بھی ہے۔ چونکہ قرآنِ کریم کی ’ترتیب ِنزولی‘کا مسئلہ اتنا اہم نہیں تھا، اسی لیے ترتیب ِنزولی کے متعلق ہمیں صرف چند ایک روایات اوروہ بھی چند آیتوں یا چند سورتوں سے متعلق ملتی ہیں جبکہ قرآنِ کریم کی باقی سورتوں کی ترتیب ِنزولی کا اثبات جن روایات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، وہ دوسرے اور تیسرے درجہ کی روایات ہیں اوران میں سے اکثر ایسی ہیں جو ’نقد حدیث‘کے معیار پر پورانہیں اُترتیں ۔ اس لیے قرآنِ کریم کو موجودہ ترتیب ِتلاوت کے علاوہ کسی اور طریقے پر نہ تو مرتب کرنادرست ہے اورنہ ہی اس ترتیب کے مطابق پڑھنا اور اس کی تلاوت کرنا صحیح ہے، جس کی حکمت یہی ہے کہ اس سے خوامخواہ کا انتشار پیدا ہوتا ہے، چنانچہ علامہ ابوبکر بن الانباری قرآن کریم کی موجودہ ترتیب کے متعلق فرماتے ہیں : ’’چنانچہ سورتوں کی ترتیب آیات اور حروف کی ترتیب ہی کی طرح ہے اور یہ پوری کی پوری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، لہٰذا جس نے کسی سورۃ کو مقدم کیا یا مؤخر کیا تو اس نے قرآنِ کریم کی تنظیم و ترتیب کو خراب کردیا۔‘‘[1] اسی طرح الکرمانی البرھان میں فرماتے ہیں : ’’سورتوں کی ترتیب لوحِ محفوظ میں اسی ترتیب کے مطابق ہے، اور اسی ترتیب کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبریل علیہ السلام کو قرآن کریم ہر سال سنایا کرتے تھے اور جس سال آپ نے وفات پائی، اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنِ کریم دو مرتبہ جبریل علیہ السلام کو سنایا اور قرآنِ کریم کی سب سے آخری آیت جو نازل ہوئی وہ ﴿وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلی