کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 53
سے یہ ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کوشش قرآن کریم کو ایک ہی مقام جگہ جمع کرنے کے بارے میں تھی، اس کو ترتیب دینے سے متعلق نہ تھی۔ اس لیے کہ قرآنِ کریم لوحِ محفوظ میں اسی ترتیب کے مطابق لکھاہوا ہے جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے آسمانِ دنیاپرایک ہی مرتبہ اُسے اُتارا تھااور پھر حسب ِضرورت اور حسب ِموقع قرآن تھوڑاتھوڑا کرکے اُترتا اور ناز ل ہوتارہا، اور ترتیب ِنزولی، ترتیب ِتلاوت سے مختلف ہے۔‘‘[1]
اسی طرح سورتوں کے مابین جوترتیب ہے، صحیح روایات اور فقہا کی اکثریت کے مطابق یہ بھی توقیفی ہے اور اس میں بھی کسی تبدیلی یاتقدیم و تاخیر کی اجازت نہیں ہے۔ [2]٭
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ قرآنِ کریم کی مکمل ترتیب جو آیات اور سورتوں کی باہمی ترتیب سے عبارت ہے، خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں مکمل ہوگئی تھی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے صرف قرآنِ کریم کو اسی ترتیب کے مطابق ایک نسخے میں جمع کیا اور پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں دوسرے سارے رسوم الخط اور دوسری تمام لغات میں قرآنِ کریم کی تلاوت کو ممنوع قرار دے کر تمام مسلمانوں کو ایک ہی رسم الخط یعنی قریش کے لہجے پر جمع کردیا اور قرآنِ کریم اپنی اسی ترتیب اور اپنے اسی نظم کے مطابق موجود ہے اور اُسے اس کے مطابق پڑھا اور پڑھایا جارہا ہے اور تمام اُمت اس بات پر متفق ہے کہ اس ترتیب میں کسی قسم کی تبدیلی یا تقدیم و تاخیر کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔