کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 52
’’ترتیب الآیات أمر واجب وحکم لازم فقد کان جبریل یقول ضعوا آية کذا في موضع کذا‘‘[1]
’’آیات کی ترتیب ایک ضروری معاملہ اورلازمی حکم ہے، چنانچہ حضرت جبریل علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اس آیت کو فلاں جگہ میں رکھ دو۔‘‘
علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے انہی قاضی ابوبکر رحمۃ اللہ علیہ سے یہ الفاظ نقل کئے ہیں :
’’ہمارا موقف یہ ہے کہ پورا قرآنِ کریم جسے اللہ تعالیٰ نے اُتارا ہے اور جس کو لکھنے کا اس نے حکم دیا ہے اور اس کے نزول کے بعد، جسے اُس نے نہ تو منسوخ کیااور نہ ہی اس کی تلاوت کو (دلوں سے) اُٹھایا ہے؛ یہ وہی قرآن ہے، جو اس وقت مجلد صورت میں ہے اور جس پرمصحف عثمانی مشتمل ہے اور اس میں نہ کبھی کسی شے کی کمی ہوئی، نہ اضافہ ہوا اور اس کی ترتیب و تنظیم بھی اس ترتیب کے مطابق ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اس کومنظم کیا تھا اور جس ترتیب کے مطابق اسے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورتوں کی آیات کومرتب کیاتھا۔ اس میں نہ تو کسی آیت کو اس کے صحیح مقام سے پہلے کیا گیا، نہ ہی اس کے مقام سے پیچھے کیاگیا اور اُمت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر سورۃ کی آیات کی ترتیب، ان کے مواقع و مقامات کو اس طرح محفوظ رکھا ہے جس طرح کہ اُمت نے قرآن کی قرات اور تلاوت کو محفوظ رکھا ہے۔‘‘[2]
امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ شرح السنة میں اسی مضمون کو یوں بیان کرتے ہیں :
’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اُسی قرآن کو جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا، بلا کسی اضافے اوربلاکسی کمی کے دو گتوں کے درمیان جمع کردیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اُسے اسی طرح لکھا جس طرح انہوں نے اُسے خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ اس میں اُنہوں نے نہ تو کسی شے کو پہلے کیااور نہ پیچھے کیا۔ نہ اُنہوں نے کسی سورۃ کی ایسی ترتیب قائم کی جورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورۃ کو عطا نہیں کی تھی اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قرآنِ کریم اسی طرح پڑھایا اور سکھایاکرتے تھے جس ترتیب کے مطابق وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا اور جس ترتیب کے مطابق وہ اس وقت موجود ہے۔ اور یہ حضرت جبریل علیہ السلام کی طرف سے، اس ترتیب کے مطابق ہے، جو اُنہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کوسکھائی اور آیت کے نزول کے وقت آپ کو بتلائی اور یہ بھی بتلایا کہ اس آیت کو فلاں آیت کے بعد اور فلاں سورۃ میں لکھا جائے۔ اس