کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 51
بتایا کہ یہ سورۃ اس کا حصہ ہے یانہیں ۔ اسی لیے میں نے دونوں سورتوں کو باہم ملا دیاہے، مگر دونوں کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی اور میں نے اسی گمان کے مطابق اسے سبع طوال میں رکھ دیا ہے۔‘‘ [1]
٭ اِسی طرح کی ایک حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع صحیح میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، وہ لکھتے ہیں :
’’میں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اے عثمان! قرآنِ کریم کی آیت ﴿وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا﴾[2]کو دوسری آیت نے منسوخ کردیا ہے۔‘‘[3]پھر آپ نے اس (منسوخ شدہ) آیت کو قرآن کریم میں کیوں درج کیا اور اُسے چھوڑ کیوں نہ دیا؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: بھتیجے میں کسی شے کو اپنی جگہ سے تبدیل نہیں کرسکتا۔‘‘[4]
٭ اس طرح صحیح مسلم میں مروی ہے کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنا کلالہ کے بارے میں پوچھا، اتناکسی اور مسئلے کے متعلق نہیں پوچھا۔ یہاں تک کہ آپ نے میرے سینے پر اپنی انگلیاں ماریں اور فرمایا: اے عمر! تیرے لیے وہ آیت کافی ہے جوسورۃ النساء کے آخر میں ہے۔‘‘[5]
ان واضح روایات کے ساتھ ساتھ اس طرح کے مضمون کی بیسیوں ایسی احادیث بھی مروی ہیں جن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق یہ ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں فلاں سورۃ تلاوت کی یا پھر مختلف سورتوں کی صبح و شام دوسرے مواقع پر تلاوت و قراء ت کی فضیلت بیان کی گئی ہے، یا مختلف سورتوں سے تعلق رکھنے والی، آیات کی تلاوت کاذکر ہے، یا مختلف سورتوں کی آیات کے مطابق طوالت یا ان کے چھوٹے ہونے کاتذکرہ کیا گیا ہے۔ جن سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں بھی قرآنِ کریم کی یہی ترتیب تھی، جو اس وقت ہمارے سامنے ہے اور جس ترتیب کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کریم کی جمع و تدوین فرمائی۔[6]
چنانچہ نامور محقق قاضی ابوبکر رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب الانتصار میں لکھتے ہیں :