کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 48
طرح ہے، جس میں نہ تو نقب لگائی جاسکتی ہے اورنہ ہی اس کی دیوار کو عبور کیاجاسکتا ہے۔اسی لیے اُنہوں نے قرآنِ کریم کے متعلق ایسے موضوعات کاانتخاب کیا، جوبظاہر مسلمانوں کے نزدیک اہم نہیں ہیں، لیکن یہ لوگ انہی موضوعات اور انہی مسائل پر گفتگو اور بحث و تحقیق کے ذریعے کمزور عقیدہ اور کمزور ایمان رکھنے والے مسلمانوں کے دلوں میں قرآنِ کریم کے متعلق شکوک و شبہات کی تخم ریزی کررہے ہیں ۔ وہ ایک چھوٹی سی بات کو پہاڑ بنا کر دکھاتے ہیں اور جو بات اُنہیں سمجھ میں نہ آئے، اس کوبہت بڑا اعتراض بناکر پیش کرتے ہیں ۔
اس سلسلے میں مستشرقین کی طرف سے قرآنِ کریم کے حوالے سے جو پہلو سب سے زیادہ اُچھالا گیا اور جس پران کے بڑے بڑے محققین نے شیطان کی طرح اپنی پوری پوری زندگیاں لگا دیں، ان میں قرآنِ کریم کی ترتیب نزولی کا مسئلہ سب سے نمایاں ہے۔
3. قرآن کریم کی ترتیب ِ نزول اور تلاوت کا مسئلہ
اس سے قبل کہ ہم مستشرقین کے اس حوالے سے اعتراضات اور اشکالات کا جائزہ لیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی ’ترتیب ِتلاوت‘ کے مسئلے کاجائزہ لے لیا جائے کہ اسلام میں اس کی کیا اہمیت ہے۔
اس بات پر تمام علما اور محققین کا اتفاق ہے کہ قرآن کریم کی موجودہ ترتیب ’توقیفی‘ یعنی ’من جانب اللہ‘ ہے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ترتیب جبریل علیہ السلام نے اور جبریل علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے سکھلائی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی ترتیب کے مطابق قرآنِ کریم کی کتابت کراتے اور تلاوت فرماتے تھے اور اسی ترتیب کے مطابق جبریل علیہ السلام سے ہرسال رمضان المبارک میں قرآنِ کریم کادور فرماتے تھے۔[1]
علاوہ ازیں صحیح روایات سے ثابت ہے کہ قرآنِ کریم کی اوّلین تدوین خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں ہوئی، چنانچہ امام سیوطی نے معروف محدث الحاکم سے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں :
’’قرآنِ کریم کی جمع و تدوین تین مرتبہ ہوئی: