کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 47
کے باج گزار تھے یا ان سے ڈرتے اور دَبتے تھے، مگر پھر وقت بدلا اور تمام اسلامی ملکوں پر مغربی ملکوں کی حکومت اور حاکمیت قائم ہوگئی۔ اور ’ترکی‘ ودیگر چند ممالک کے سوا کوئی ملک ایسانہ تھا جس نے ان ظالم و جابر غیر ملکی حکمرانوں کی محکومی کا مزہ نہ چکھا ہو۔ اب پھر صور ت حال بدل چکی ہے اور بظاہر اسلامی ممالک غیر ملکی تسلط سے آزاد ہوچکے ہیں، لیکن ان پر عملاً ابھی تک انہی کا راج اور انہی کی حکمرانی ہے اور وہ ان پر قبضہ کئے بغیر محض اپنی عیاری اور مکاری کے بل بوتے پر اُنہیں اپنی لاٹھی سے ہانک رہے ہیں، لیکن افسوس اور دُکھ کی بات یہ ہے کہ حالات کی دگرگونی کے باوجود مسلمان خوابِ غفلت سے جاگنے کے لیے تیارنہیں ہیں ۔
2. علمی ایوانوں کی حاکمیت
اس کے ساتھ ساتھ نہایت تکلیف دہ اور نہایت اذیت ناک پہلو یہ ہے کہ ’علمی ایوانوں ‘ پر بھی مغربی اہل علم کی حکومت اور حاکمیت کا سلسلہ چل رہا ہے اور مسلمان محض ان کی طرف سے پیش کی جانے والی تحقیقات اور ان کی طرف سے آنے والے نظریات کی جگالی ہی کو بڑے فخر اور مسرت کی بات سمجھ رہے ہیں ۔ پھرجس طرح ایک سچے مسلمان کے لیے ان کی سیاسی بالادستی انتہائی اَذیت کا باعث ہے، اسی طرح ان کی علمی برتری اور بالادستی بھی اہل علم و فضل کے لیے نہایت تکلیف اور اذیت کا سبب ہے۔
مغربی اہل دانش نے جب ’کاغذ اور قلم‘ کے ایوانوں پراپنی سیادت کا جھنڈا لہرایا اور علم اور سائنس کے شعبوں پراپنی بالادستی قائم کی، تو اُنہوں نے سیاسی حکومتوں کو مدد پہنچانے اور مسلمانوں کوسیاسی میدان میں دبانے کے بعد علمی اور فکری میدان میں بھی انہیں نیچا دکھانے کے لیے چند ایسے عنوانات منتخب کئے، جن پر مختلف اَدوار میں آنے والے لوگ پہلوں ہی کی جگالی کرتے اور مسلمانوں کو علمی اور فکری پہلو سے تکلیف اور اذیت پہنچانے کی کوشش کرتے رہے ہیں ۔
ایسے شعبوں یا میدانوں میں، جنہیں اُنہوں نے مسلمانوں کے خلاف منتخب کیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے بعد ’قرآنِ کریم‘ کے مسائل و موضوعات سرفہرست ہیں ۔ لیکن چونکہ قرآن کریم اپنے ہر پہلو سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کامل و مکمل معجزہ ہے اور یہ اپنی تدوین سے لے کر اپنی تلاوت اور اپنی قراء ت تک،ہر موضوع میں ایک ایسے محفوظ و مصؤن قلعے کی