کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 45
مخلوق ہیں اور برابر ہیں ۔ مسلمانوں نے اپنے کردار وعمل سے ہر مرحلہ پر اس کا ثبوت پیش کیا ہے۔ آج کا دورِ زوال اس لئے امہ پر طاری ہوا ہے کہ ہم نے اسلام کے زرّیں اُصول طاقِ نسیاں کردیے اور اسلام پر عمل کرنا ترک کردیا ہے۔ جب کہ انسانوں کا بنایا ہوا نظامِ سیاست جمہوریت، جس کا آج خوب ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، اس میں یہ حاکمیت اللہ کی بجائے عوام کے نمائندوں کو حاصل ہے، اسی لئے وہ قانون سے بالا تر ہیں ۔ اسلام اس تصور کو تسلیم نہیں کرتا، یاد رہے کہ اسلامی تاریخ میں حکمرانوں سے بازپرس کی جو مثالیں ملتی ہیں، بعض لوگ نظام خلافت کے علم بردار خلفا کے اس عظیم الشان طرزِ عمل کو جمہوری رویہ قرار دیتے ہوئے عجب خلط ِمبحث کرتے ہیں ۔ جبکہ خلفا کی یہ گرفت عوام کے جمہوری/ عوامی استحقاق کی بجائے دراصل ان کے خلافِ شریعت عمل کرنے کی کوتاہی کا وبال ہے، جس خلافِ شرع عمل کی نشاندہی کوئی فرد بھی کرسکتا ہے، اگر کوئی نہ بھی کرے تب وہ شخص اللہ کے ہاں مجرم اور سزا وار ہوگا۔ اسلام میں اللہ کی شریعت اور قانون سب سے بالا تر ہیں جس کا اطلاق مسلم قاضی حضرات مسلم خلفا سمیت ہرفرد پر یکساں طورپر کرتے رہے ہیں ۔ ہمارے آئین کے اندر موجود سربراہِ مملکت کو حاصل یہ تحفظ اور استثنیٰ عدل و انصاف کے سراسر منافی ہے اور قوانین واحکامِ الٰہیہ کا سراسر مذاق ہے۔ مسلمان کے لئے ملکی آئین سے بڑھ کر اللہ کی شریعت یعنی کتاب وسنت ہے، مرتے دم تک جس کی غیر مشروط اطاعت کا اس نے اقرار کیا ہے تو وہ مسلمان ٹھہرا ہے۔ اہل حل و عقد اور ارباب ِاقتدار کو عدل و انصاف کے منافی اس قانون کے بارے میں سنجیدگی سے غوروفکر کرنا چاہئے اور اسے تبدیل کیا جانا چاہئے۔ جیسا کہ ہمارا دعویٰ ہے ہم ایک اسلامی مملکت کے باشندے اور ہمارا آئین اسلامی ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو ہمیں اس عدل و انصاف کے منافی، امتیازی قانون کو جلد از جلد ختم کردینا چاہئے تاکہ ہم اپنے دعویٰ میں سچے ثابت ہوں ۔ مملکت میں عدل و انصاف کا بول بالا ہو اور ملک امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکے۔ مشہور مقولہ ہے کہ فسق و فجور سے تو حکومت قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم سے نہیں !! (حافظ محمد مصطفی راسخ)