کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 44
بایزید کا نام بھی شامل ہے۔ سامنے دیکھا تو وہ گواہوں کے کٹہرے میں کھڑا ہے۔
اچانک قاضی نے فیصلہ سنا دیا: سلطان بایزید کی گواہی کو مسترد کیا جاتاہے کیونکہ گواہ قابل اعتبار نہیں ہے۔ عدالت میں سناٹا چھا گیا۔ حاکم وقت کی گواہی ناقابل قبول، لوگ حیران و ششدر رہ گئے۔
سلطان بایزید نے آگے بڑھ کر قاضی کو مخاطب کیا :
کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ مجھے گواہی کے قابل کیوں نہیں سمجھاگیا ہے؟
قاضی نے حاکم کی حیثیت اور ہیبت کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا’’گواہ باجماعت نماز ادا نہیں کرتا، اس لیے اس کی گواہی ناقابل قبول ہے۔‘‘
قاضی نے حاکم وقت کی گواہی کو مسترد کرتے ہوئے اسلام کے عدالتی نظام کو وقار اور مزید جلا بخشی اور ثابت کردیا کہ کرسئ عدالت پر بیٹھ کر چھوٹے اور بڑے میں تمیز نہیں کی جاتی۔
حاکم نے فیصلہ سنا اور اس کے سامنے گردن جھکا دی۔ اپنی کمزوری کا اعتراف کیا اور حکم دیا کہ فی الفور میرے محل کے سامنے ایک خوبصورت سی مسجد بنائی جائے۔ اس مسجد کی اگلی صف میں اپنے لیے جگہ مخصوص کی اور اس کے بعد نمازِ باجماعت سے غفلت کا کبھی مرتکب نہیں ہوا۔ (انسا ئیکلو پیڈیا تاریخ عالم:۱/۶۱،۶۲)
تاریخ اسلامی ایسے روشن اور عدل و مساوات پر مبنی فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔ جہاں حکمران، وزرا، گورنر اور عسکری کمانڈر عدالت میں پیش ہوتے اور قانون و شریعت کا سامنا کرتے اور ان فیصلوں کے سامنے اپنا سرجھکا لیتے تھے۔ یہ اسلام کا ہی امتیاز ہے کہ اس میں قانونی طور پر تمام انسان برابر ہیں ۔ سربراہِ حکومت اور ایک عام مسلمان کے حقوق میں کوئی فرق نہیں ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین،صحابہ کرام کے ارشادات اور تاریخ اسلامی کے اس سرسری مطالعے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ اسلام میں اصل حیثیت اللہ کی شریعت کو حاصل ہے۔ شریعت ِاسلامیہ کی یہ حاکمیت حکمران وعہدیدار سے بڑھ کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی آل اولاد تک کو شامل ہے۔اس میں کوئی استثنا نہیں، کیوں کہ اللہ کی نظر میں سب انسان اس کی