کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 43
مقصود زمین پر قبضہ جمانا نہیں اور نہ حق کے بغیر وہاں حکومت کرنا مقصود ہے۔ میں حکم دیتا ہوں کہ مسلمان اس شہر سے نکل جائیں اور شہر اس کے اصل باشندوں کے حوالے کردیں ۔ ان کو دعوتِ دین دیں،جنگ کا چیلنج کریں اور ان سے لڑائی کا اعلان کریں ۔‘‘
اہل سمرقند نے اس فیصلے کوسنا۔ اُن کے کانوں اور آنکھوں نے جو سنا اور دیکھا، اس پر یقین نہیں آرہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں قاضی کے فیصلے پر عمل درآمد شروع ہوچکا تھا اور فوجیں واپس جارہی تھیں ۔ وہ اَفواج جن کے سامنے مدینہ سے لے کر سمرقند تک کوئی چیز رکاوٹ نہ بن سکی۔ جنہوں نے قیصر و کسریٰ اور خاقان کی قوتوں کو پاش پاش کرکے رکھا دیا۔ جو رکاوٹ بھی راستے میں آئی، اسے خس و خاشاک کی طرح بہا لے گئے۔ مگر آج اسلامی فوج ایک کمزور، نحیف و نزار جسم کے مالک قاضی کے فیصلے کے سامنے دست بردار ہوگئی۔ آج صبح کی بات ہے کہ ایک شخص جس کے ساتھ صرف ایک غلام ہے۔ اس نے مقدمے کی سماعت کی، چند منٹوں کی سماعت، عدالت میں دو طرفہ بیانات سنے، سپہ سالار کا اقرار اور دوتین فقروں پر مشتمل فیصلہ۔
اس عادلانہ فیصلے کو دیکھ کر اہل سمرقند نے اسلامی فوج کے راستے روک لئے، گھوڑوں کی باگیں پکڑ لیں کہ ہمارے اس ملک سے واپس مت جائیں ۔ ہمیں اسلامی عدل و انصاف کی ضرورت ہے۔ پھر چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ سمرقند کی گلیاں اور چوک اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اُٹھے۔ لوگ جوق درجوق مسلمان ہونے لگے اور اس طرح سمرقند کی زمین اسلام کی دولت میں داخل ہوگئی۔ (قصص من التاریخ از شیخ علی طنطاوی)
٭ عہد ِاسلام کے اس زرّیں دور میں بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ سربراہِ مملکت اورحکمران عدالت میں بطورِ گواہ حاضر ہوتا ہے مگر اس کی گواہی کو مسترد کردیا جاتا ہے۔ اسی دور کی ایک عدالت کا نقشہ کچھ یوں ہے :
قسطنطنیہ مسلمانوں کی سلطنت ِعثمانیہ کا دارالحکومت، آج کل استنبول کہلاتا ہے، جہاں عدالت لگی ہوئی ہے۔ قاضی شمس الدین محمد حمزہ کرسئ عدالت پر براجمان ہیں ۔ مقدمہ پیش ہوا۔قاضی نے گواہان کی فہرست دیکھی۔ اس کے اندر حاکم وقت سلطان