کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 42
قبول ہے۔ کیونکہ جب وہ آپ کی مجلس میں جھوٹ بولنے کی پرواہ نہیں کرتا، تو بدرجہ اولیٰ وہ مجلس قضا میں بھی جھوٹ کی پرواہ نہیں کرے گا۔
خلیفہ نے جب قاضی ابویوسف کا یہ مدلل کلام سنا تو اُنہیں معذور جانا اور اس فیصلے پر ان کی تائید کی۔ [تاریخ بغداد:۱۲/۳۴۳،۳۴۴]
٭ ایک موقعہ پر اہل سمرقند نے اسلامی لشکر کے سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کے خلاف اسلامی عدالت میں مقدمہ دائر کردیا۔ قاضی نے مسجد کے ایک کونے میں اپنی نشست سنبھالی اور کارروائی کا آغاز کردیا۔ قاضی کا غلام اس کے سر پر کھڑا ہے۔ بغیر کسی لقب کے امیر لشکر کا نام لے کربلایا جارہا ہے کہ وہ حاضر ہو۔ امیر لشکر فاتح سمرقند قتیبہ بن مسلم حاضر ہوا۔ عدالت نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ پھر اہل سمرقند کے سردار کاہن کو بلوایا اور فریق اول کے ساتھ بٹھا دیا۔ عدالت کی کارروائی شرو ع ہوتی ہے۔
قاضی اپنی نہایت پست آواز میں کاہن سے مخاطب ہے: بتاؤ تم کیا کہتے ہو؟
اس نے کہا: آپ کا کمانڈر قتیبہ بن مسلم ہمارے ملک میں دھوکے سے داخل ہوا ہے۔ اعلانِ جنگ نہیں کیا اور نہ ہی ہمیں اسلام کی دعوت دی ہے۔ قاضی نے امیر کی طرف دیکھا اور پوچھا: تم کیا کہتے ہو؟
امیر لشکر نے قاضی سے کہا: لڑائی تو دھوکہ ہوتی ہے۔ یہ ملک بہت بڑا ملک ہے اس کے باشندوں کو اللہ تعالیٰ نے ہماری وجہ سے شرک و کفر سے محفوظ فرمایا ہے اور اسے مسلمانوں کی وراثت اور ملکیت میں دے دیا ہے۔
قاضی نے پوچھا: کیا تم نے حملے سے پہلے اہل سمرقند کو اسلام کی دعوت دی تھی یا جزیہ دینے پر آمادہ کیا تھا یا دونوں صورتوں میں انکار پر لڑائی کی دعوت دی تھی۔
سپہ سالار نے کہا: نہیں ایسا تو نہیں ہوا۔ قاضی نے کہا: تو گویا آپ نے اپنے قصور کا اعتراف کرلیا۔ اب آگے قاضی صاحب کے الفاظ پر غور کریں، فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کی مدد اس لیے کی ہے کہ اس نے دین کی اتباع کی اور دھوکہ دہی سے اجتناب کیا۔ اللہ کی قسم! ہم اپنے گھروں سے جہاد فی سبیل اللہ کے لیے نکلے ہیں ۔ ہمارا