کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 41
خلیفہ ہشام کا درباری سپاہی۔ دونوں عدالت میں پہنچ کر قاضی کے سامنے بیٹھ گئے۔ درباری سپاہی بولا: قاضی صاحب! امیرالمؤمنین اور ابراہیم کے درمیان ایک تنازعہ ہے۔ امیرالمؤمنین نے مجھے اپنی نیابت کے لیے بھیجا ہے۔ قاضی نے کہا: تمہاری نیابت پر دو گواہ مطلوب ہیں ۔ درباری سپاہی بولا: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں امیرالمؤمنین کی طرف سے کچھ جھوٹ بولوں گا، حالانکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی دور کا فاصلہ نہیں ہے۔ میں ان کا قریبی سپاہی ہوں ۔ قاضی نے کہا: شہادت کے بغیر نہ تمہارے حق میں مقدمہ ہوسکتا ہے اور نہ تمہارے خلاف۔
قاضی کا دو ٹوک کلام سن کر درباری سپاہی عدالت سے نکل گیا اور خلیفہ کی خدمت میں پہنچ کر پوری داستان کہہ سنائی۔ خلیفہ اُٹھ کھڑا ہوا اور تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ عدالت کے باہر موجود تھا۔ عدالت کا دروازہ کھلتے ہی درباری سپاہی آگے بڑھا اور بولا: قاضی صاحب! یہ دیکھیں امیرالمؤمنین حاضر ہیں ۔ خلیفہ ہشام کو دیکھتے ہی قاضی صاحب استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے مگر خلیفہ نے انہیں بیٹھنے کا حکم دیا۔ پھر قاضی نے ایک مصلیٰ بچھایا، اس پر خلیفہ اور اس کا مقابل ابراہیم بن محمد بیٹھ گئے۔
عتیبی بیان کرتے ہیں کہ ہم حاضرین اس قضیے سے متعلق ہونے والی گفتگو صاف صاف نہیں سن رہے تھے۔ البتہ کچھ باتیں ہمیں سمجھ آرہی تھیں ۔ فریقین نے اپنے اپنے دلائل پیش کئے۔ قاضی نے مفصل گفتگو سننے کے بعد خلیفہ ہشام کے خلاف فیصلہ دے دیا۔
[قصص العرب:۳/۴۷، القصد الفرید:۴/۴۴۷]
٭ فضل بن ربیع، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد قاضی ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے پاس خلیفہ ہارون الرشید کی طرف سے بحیثیت ِگواہ حاضر ہوا لیکن قاضی نے اس کی گواہی مسترد کردی۔ خلیفہ ہارون الرشید نے پوچھا: فضل کی گواہی کو آپ نے کیوں ردّ کردیا ہے؟ قاضی ابویوسف نے کہا: میں نے اسے ایک دن آپ کی مجلس میں یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ وہ آپ کا غلام ہے۔ چنانچہ اگر وہ اپنے قول میں صادق ہے تو اس کی شہادت ناقابل قبول ہے، کیونکہ بقول خود وہ غلام ہے اور اگر وہ اپنے قول میں جھوٹا ہے تو اس صورت میں بھی اس کی گواہی ناقابل