کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 40
کیا۔ اُنہوں نے بھی آپ کے حق میں گواہی دی۔ قاضی شریح نے کہا: میں آپ کے غلام کی گواہی تو قبول کرتا ہوں مگر ایک گواہ مزید درکار ہے، کیونکہ آپ کے حق میں آپ کے بیٹوں کی گواہی ناقابل قبول ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے: (( إن الحسن والحسین سیدا شباب أہل الجنة)) ’’حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ نوجوانانِ اہل جنت کے سردار ہیں ۔‘‘ قاضی شریح نے کہا: اللہ کی قسم! یہ بالکل حق ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تو پھر آپ ان کی گواہی قبول کیوں نہیں کرتے؟ قاضی شریح نے کہا: یہ دونوں آپ کے بیٹے ہیں اور باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی قبول نہیں ۔ یہ کہہ کر قاضی شریح نے امیرالمؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف یہودی کے حق میں فیصلہ سنا دیا اور زرہ یہودی کے حوالے کردی۔ یہودی نے تعجب سے کہا: مسلمانوں کا حکمران مجھے اپنے قاضی کی عدالت میں لایا اور قاضی نے اس کے خلاف میرے حق میں فیصلہ صادر فرمایا دیا، اور امیرالمؤمنین نے اس کا فیصلہ بلا چوں و چرا قبول بھی کرلیا۔ واللہ یہ تو پیغمبرانہ عدل ہے۔ پھر یہودی نے امیرالمؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف نگاہ اٹھائی اور کہنے لگا۔ امیرالمؤمنین! آپ کا دعویٰ بالکل سچ ہے۔ یہ زرہ یقینا آپ ہی کی ہے۔ فلاں دن یہ آپ کے اونٹ سے گر گئی تھی تو میں نے اسے اٹھا لیا۔ چنانچہ و ہ یہودی اس عادلانہ فیصلے سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگیا۔ (حلية الأولیاء از ابن الجوزی، کنز العمال: رقم ۱۷۷۹۰ ) ٭ حکمرانوں اور رعایا کے درمیان نظامِ عدل اور قانونی مساوات کا یہ سلسلہ خلافت ِراشدہ کے بعد دورِ ملوکیت تک پوری آن بان کے ساتھ جاری رہا۔ حکمران عدالتوں میں پیش ہوتے رہے اور قانون کا سامنا کرتے رہے۔ ٭ عتیبی کہتے ہیں کہ میں اُموی خلیفہ ہشام بن عبدالمالک کے قاضی کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں قاضی کی عدالت میں دو آدمی حاضر ہوئے۔ ایک ابراہیم بن محمد تھا اور دوسرا