کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 39
ہوسکتا، چاہے آپ میری گردن اُڑا دیں ۔ امیرالمؤمنین نے فرمایا: فإن رددتک فأي رجل تکون؟ ’’اگر میں تمہیں گذشتہ منصب پر بحال کردوں تو پھر تم کس طرح کے آدمی ہوگے؟ اس نے کہا: وﷲ! لا یبلغک بعدھا إلا ما تحب ’’اللہ کی قسم! اب اس کے بعد آپ کو وہی رپورٹ ملے گی جو آپ پسند کریں گے۔‘‘ چنانچہ اس کے بعد وہ آدمی مصر کا ایک مثالی گورنر بن گیا اور اپنی ذمہ داریاں خوف و تقویٰ اور اخلاص و للہیت کے ساتھ انجام دینے لگا۔ [قصص العرب:۳/۱۶، ابن ابی الحدید:۳/۹۸ بحوالہ ’سنہرے فیصلے‘ از عبدالمالک مجاہد:۱۸] ٭ اسلامی عدالتوں کا عدل و انصاف پر مبنی ایسا ہی ایک واقعہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں پیش آیا۔ جس میں سربراہِ حکومت سیدنا علی رضی اللہ عنہ بطورِ ایک فریق عدالت میں حاضر ہوئے اور گواہ پیش نہ کرنے کی صورت میں ان کے خلاف فیصلہ صادرکردیا گیا جس کو اُنہوں نے برضا و خوشی قبول کرلیا۔ ہوا یوں کہ ایک دن امیرالمؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی زرہ گم ہوگئی۔ آپ نے وہ زرہ ایک یہودی کے پاس دیکھی اور اس یہودی کوکہا کہ یہ میری زرہ ہے، فلاں دن گم ہوگئی تھی جبکہ یہودی نے مسلمانوں کے خلیفہ امیرالمؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا دعویٰ درست ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ اس کا فیصلہ عدالت ہی کرے گی۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور وہ یہودی دونوں فیصلے کے لیے قاضی شریح رحمۃ اللہ علیہ کی عدالت میں پہنچے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنا دعویٰ پیش کیا کہ یہودی کے پاس زرہ، میری ہے جو فلاں دن گم ہوگئی تھی۔ قاضی نے یہودی سے پوچھا: آپ نے کچھ کہنا ہے۔ یہودی نے کہا: میری زرہ میرے قبضے میں ہے اور میری ملکیت ہے۔ قاضی شریح نے زرہ دیکھی اور یوں گویا ہوئے۔ اللہ کی قسم! اے امیرالمؤمنین! آپ کا دعویٰ بالکل سچ ہے۔ یہ زرہ آپ ہی کی ہے لیکن قانون کے تقاضوں کو پورا کرنا آپ پر واجب ہے۔ قانون کے مطابق آپ گواہ پیش کریں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بطورِ گو اہ اپنے غلام قنبر کو پیش کیا۔ پھر آپ نے اپنے دو بیٹوں حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ کو عدالت میں پیش