کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 38
کرتے ہوئے اُنہیں معزول کردیا اور حضرت سعد کے بارے میں اچھا گمان رکھنے کے باوجود اس تہمت کی تحقیق کروائی۔
٭ ایسا ہی ایک اور واقعہ عہد عمر رضی اللہ عنہ میں پیش آیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مسجد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تشریف فرما تھے، ان کے پاس سے ایک آدمی گزرا جو کہہ رہا تھا۔ ویل لک یا عمر من النار ’’اے عمر! تمہارے لیے جہنم کا ’ویل‘ ہے۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حاضرین میں سے کچھ لوگوں کو کہا کہ اس آدمی کو میرے پاس لاؤ۔ جب اس آدمی کو لایا گیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا۔ تم نے یہ بات کیوں کہی ہے، وہ کہنے لگا۔ آپ حکام مقرر کرتے وقت اس سے شرائط قبول تو کرواتے ہیں مگر ان کا محاسبہ نہیں کرتے کہ اُنہوں نے شرائط پوری کی ہیں یا نہیں ۔ امیرالمؤمنین نے پوچھا بات کیا ہے۔ اس نے بتایا : آپ کے مصری گورنر نے ان شرائط کو فراموش کردیا ہے اور آپ کے منع کردہ اُمور کا ارتکاب کیا ہے۔ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے شکایات سننے کے فوراً بعد دو انصاری صحابہ کو مصر روانہ کیا کہ وہاں جاکر تفتیش کرو۔ اگر اس آدمی کی بات درست نکلے تو اسی وقت اسے گرفتار کرکے میری خدمت میں پہنچو۔ چنانچہ اُنہوں نے مصر کے گورنر کو گرفتار کرلیا اور امیرالمؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے پہچاننے سے انکار کردیا کیونکہ مصر کا حاکم بن کر جانے سے قبل وہ گندمی رنگ کا تھا مگر جب مصر کی سرسبزی و شادابی اسے راس آئی تو وہ گورا چٹا اور بھاری بھر کم انسان بن چکا تھا۔ امیرالمؤمنین نے فرمایا: تیرا ستیاناس ہو۔ جس بات سے تجھے منع کیا گیا اس کو تو نے گلے لگالیامگر جس بات کا حکم دیا گیا تھا اس کو فراموش کربیٹھا۔ اللہ کی قسم! میں تجھے ضرور عبرتناک سزا دوں گا۔
پھر امیرالمؤمنین نے اون کا ایک پھٹا ہوا لباس، ایک لاٹھی اور صدقے میں آئی ہوئی تین سو بکریاں منگوا کر اس ’حاکم مصر‘ سے فرمایا۔ یہ لباس پہنو، میں نے تمہارے باپ کو اس سے بھی ردّی لباس پہنے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ لاٹھی اُٹھاؤ جو تمہارے باپ کی لاٹھی سے بہتر ہے اور فلاں چراگاہ میں جاکر ان بکریوں کو چراؤ۔
وہ آدمی فوراً زمین پر گر گیا اور کہنے لگا۔ اے امیرالمؤمنین! یہ کام مجھ سے نہیں
[1] Do
[2] بچے اور بچی کے پیشاب اور کے اخراج کے عمل کو تفصیل سے جاننے کے لیے دیکھئے :
htp//wwww.wikipedia.com