کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 36
اُنہوں نے احتراماً اس سے احتراز و تامل کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خود قسم اُٹھائی اور فرمایا: اللہ کی قسم! زید رضی اللہ عنہ اس وقت تک منصب ِقضا کے لائق نہیں ہوسکتے جب تک ان کے نزدیک امیرالمؤمنین عمر رضی اللہ عنہ اور ایک عام مسلمان برابر نہ ہو۔ (السنن الکبری از بیہقی:۱۰/۱۳۶) ٭ خلفاے راشدین جہاں اپنے آپ کو کسی آئین و قانون سے بالاتر نہ سمجھتے تھے، وہیں تمام مسلمانوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرتے۔ شرفا اور عام مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں تھا۔ اگر کسی حکومتی عہدیدار کے خلاف کوئی شکایت ملتی تو فوراً اس کی تحقیق کرتے اور ذمہ داران کو سزا دیتے۔ حتیٰ کہ اگر کسی حکومتی عہدیدار پر کوئی تہمت ہی لگ جاتی تو فوراً اسے معزول کردیتے تاکہ عدل کے تقاضوں کو پورا کیا جاسکے اور اس کا عہدہ عدل کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ ایک موقع پر امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تمام گورنروں کو حج کے موقع پر طلب کیا اور مجمع عام میں کھڑے ہوکر اعلان فرما دیا کہ اگر کسی مسلمان کو ان کے خلاف ظلم کی کوئی شکایت ہو تو وہ پیش کرے۔ مجمع میں سے ایک شخص اُٹھا اور اس نے کہا کہ آپ کے گورنرعمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مجھے ناحق سو کوڑے لگوائے ہیں، میں ان سے بدلہ لینا چاہتا ہوں ۔ خلیفہ و قت نے کہا کہ اُٹھو اور اپنا بدلہ لے لو۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیرالمؤمنین: آپ گورنروں کے خلاف یہ راستہ نہ کھولیں ۔ مگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے آپ سے بدلہ لیتے دیکھا ہے۔ اے شخص اُٹھ اور اپنا بدلہ لے۔ آخر کار حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو ہر کوڑے کے بدلے میں دو، دو اشرفیاں دے کر جان بچانا پڑی۔ (کتاب الخراج از امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ ) ٭ امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ اہل کوفہ نے امیرالمؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی عدالت میں کوفہ کے گورنر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ (جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ) کی شکایت کی۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو معزول کرکے ان کی جگہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا گورنر مقرر کردیا۔ اہل کوفہ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے خلاف شکایت یہاں تک کی تھی کہ وہ نماز بھی اچھی طرح سے نہیں پڑھاتے۔
[1] Urine by Wikipedia; the free encyclopeadia URL http://www.wikipedia.com at [Nov. 6, 2008]