کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 34
(( أتشفع في حد من حدود ﷲ ثم قام فاختطب ثم قال إنما أھلک الذین قبلکم إنہم کانوا إذا سرق فیھم الشریف ترکوہ وإذا سرق فیھم الضعیف أقاموا علیہ الحد وأیم ﷲ لو أن فاطمۃ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سرقت لقطعتُ یدھا)) (صحیح بخاری:۳۴۷۵، مسلم:۱۶۸۸)
’’کیا تم اللہ کی حدود میں سفارش کرتے ہو! پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور خطبہ دیتے ہوئے فرمایا : تم سے پہلے لوگوں کو اس چیز نے تباہ و برباد کردیا کہ جب ان میں کوئی شریف آدمی چوری کرلیتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی ضعیف (کمزور) آدمی چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کردیتے۔ اور اللہ کی قسم اگر فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت ِمحمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کرلیتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالتا۔‘‘
٭ اسلام کی نامور ہستیاں اور عشرہ مبشرہ بھی اپنے آپ کو قانون سے بالا تر خیال نہیں کرتے تھے، حتی کہ جب انہیں خلافت راشدہ کے مناصب پر فائز کیا گیا، تب بھی ان کا یہ رویہ برقرار رہا اور خلفاے راشدین نے اپنے آپ کو اس نظام عدل سے کبھی بالاتر نہ سمجھا اور اپنی ذات کو قانون وشریعت سے مستثنیٰ نہ رکھا کیونکہ قرآن و سنت میں اس کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ ایک موقع پر امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نمازِ جمعہ کے لیے کپڑے
پہن کر جارہے تھے۔ جب سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے گھر کے پاس سے گزرے تو راستے میں لگے ان کے گھر کے پرنالے سے گرنے والے پرندوں کے خون سے ان کے کپڑے خراب ہوگئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پرنالے کو اُکھاڑنے کا حکم دے دیا اور گھر واپس لوٹ گئے اور متبادل کپڑے پہن کر آئے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ، امیرالمؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: (وﷲ إنہ للموضع الَّذي وضعہ النبي)
’’اللہ کی قسم! یہ پرنالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ لگایا تھا۔‘‘
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سنتے ہی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو قسم دیتے ہوئے کہا : تم لازماً میری کمر پر چڑھ کر اس پرنالے کو وہیں نصب کردو جہاں سے اُکھاڑا گیا ہے۔ چنانچہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا۔ [مسنداحمدبن حنبل:۱۷۹۰، قال الارنوؤط:حسن]
٭ ایک موقع پر امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:اے لوگو! تم