کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 33
کسی قریبی، رشتہ دار، دوست وغیرہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ نیز فریقین میں سے، جو حق پر ہو، اس کے حق میں فیصلہ کردیا جائے اور کسی قسم کے دباؤ یا مصلحت کو قبول نہ کیا جائے۔ خواہ وہ فیصلہ سربراہِ مملکت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اسلامی نظامِ عدل میں تمام انسان برابر ہیں ۔ سربراہِ مملکت اور ایک عام مزدور میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ٭ سربراہِ مملکت تو کجا، دنیا میں سب سے عظیم ہستی سید الاولین والآخرین محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے، اور اسلام نے عدل وانصاف کے تقاضوں کی خاطر ان کو بھی شریعت سے بالاتر قرار نہیں دیا اور بذاتِ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس نظام عدل سے بالاتر نہیں سمجھا بلکہ ایک موقع پر اپنے آپ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے پیش کرتے ہوئے فرمایا: اگر کوئی شخص مجھ سے بدلہ لینا چاہتا ہے تو لے لے؟ صحابہ کرام میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ایک بار آپ نے مجھے چھڑی ماری تھی، میں اس کا بدلہ لینا چاہتا ہوں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بدلہ لینے کی اجازت دے دی۔ اس صحابی نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جب آپ نے چھڑی ماری تھی تو اس وقت میرے جسم پر کپڑا نہیں تھا جبکہ آپ کے جسم پر قمیص ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص اتاری اور فرمایا کہ اب بدلہ لے لو۔تب وہ صحابی آپ کے جسم کے ساتھ چمٹ گیا اور بوسے لینے لگا اور کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا تو یہ مقصد تھا۔ (السنن الکبریٰ از امام بیہقی:۸/۴۸) ٭ نبی کائنات کو اپنی صاحبزادی بہت محبوب تھیں، لیکن آپ نے عدل وانصاف کے قیام میں بطورِ خاص ان کی مثال دے کر یہ بات بیان فرمائی جو تاریخ عدل کا ایک درخشندہ فرمان ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ فرماتی ہیں کہ قبیلہ بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کرلی اور اس کا جرم ثابت ہوگیا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کا ہاتھ کاٹ دینے کا حکم جاری کردیا۔ قبیلے والوں نے سوچا کہ اگر اس عورت کا ہاتھ کٹ گیا تو ہماری ناک کٹ جائے گی اور ہم تمام قبائل میں رُسوا ہوجائیں گے۔ چنانچہ اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب سیدنا اُسامہ بن زید کو سفارشی بناکر بھیجا کہ اس عورت کا جرم معاف کردیا جائے۔ جب سیدنا اُسامہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] تحفۃ الاحوذی،کتاب الطہارۃ، باب ما جاء في نضح بول الغلام