کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 31
اسلام جو دین فطرت ہے، اس میں سربراہِ ریاست(خلیفہ) سمیت کسی بھی عہدیدار کو عدالت کی حاضری سے مستثنیٰ نہیں کیا گیا بلکہ اسلامی معاشرے میں ہر فرد کا محاسبہ کیا جاتا ہے۔ صدر مملکت کے علاوہ سیاسی قائدین اور جمہوری رہنماؤں کے بھی قانون کی گرفت میں آنے کے امکانات پیدا ہورہے ہیں ۔ حکومت نے این آر او سے مستفید ہونے والوں کی جو فہرست شائع کی ہے او رقرضے معاف کرانے والوں کی جو فہرست منظر عام پر لائی گئی ہے، اس پر ایک نظر ڈالنے کے ساتھ ہی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا ملکی قانون اس سلسلے میں کیا رجحان رکھتا ہے اور کیا ہم اس موقعہ پر انصاف کے تقاضے پورے کرسکیں گے۔ اسلام ہمارا دین ہے اورزمین کا یہ خطہ اسلام کے لئے ہی حاصل کیا گیا تھا۔کتاب وسنت کو دستور میں ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ ہمیں اس موقع پر یہ دیکھنا ہے کہ ہمارا دین ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے اور مسلم اُمہ کی تاریخی روایات کس رویہ کی علمبر دار رہی ہیں ۔ اگر ملکی قانون/ آئین میں کوئی سقم بھی ہے تو پاکستان میں کتاب وسنت کے خلاف ہر قانون کو کالعدم قرار دینے کے لئے مستقل شرعی عدالتیں موجود ہیں، جن سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ اسلام کی نظر میں تمام انسان مساوی ہیں اورکسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے، سوائے تقوی کے۔ اسلام کی نظر میں سربراہِ مملکت اور ایک عام مزدور آدمی دونوں برابر ہیں ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿یٰاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّأنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ ﷲِ اَتْقٰکُمْ اِنَّ ﷲَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ﴾ (الحجرات:۱۳) ’’اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘ تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی عدالتوں نے نہ صرف وقت کے حکمرانو ں کو عدالت میں طلب کیا، بلکہ عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ان کے خلاف فیصلے بھی صادر فرمائے۔ جن کو اُنہوں نے نہ صرف خندہ پیشانی سے قبول کیا بلکہ
[1] سنن ابن ماجہ :۵۲۲ [2] فتح الباری:۲/۴۳۱ [3] المعجم الوسیط: ۲،۱/ ص: ۹۲۸ اور ۳۴۷ [4] فتح الباری:۲/۴۳۲ [5] ایضاً [6] ایضاً