کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 29
کتاب: محدث شمارہ 333
مصنف: حافظ عبد الرحمن مدنی
پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی لاہور
ترجمہ:
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
فکر ونظر
سربراہِ مملکت وقائدین سے عدالتی باز پرس اور اسلام
۶/اکتوبر ۲۰۰۷ء کو جنرل پرویز مشرف کا جاری کردہ نام نہاد ’قومی مفاہمتی آرڈیننس‘ NRO ملکی حلقوں کی گرما گرم بحث کا موضوع ہے۔ اس سے قبل ۳/نومبر ۲۰۰۷ء کو اعلیٰ عدلیہ کے ۵۵ کے قریب جج حضرات کو فارغ کرکے جنرل مشرف نے جس نئی عدلیہ کو متعین کیا تھا، عدالتی حلقوں میں گذشتہ چند ماہ سے ان جج حضرات سے باز پرس بھی کی جارہی ہے اور ان میں سے کئی جج حضرات یا تو سبک دوش کردیے گئے ہیں یا وہ عدالت ِعظمیٰ سے معافی کی درخواستیں پیش کر رہے ہیں ۔ ۲۸/ نومبر ۲۰۰۹ء این آر او سے مستفید ہونے والوں کے تحفظ کی آخری تاریخ تھی جس دن حالیہ صدر نے ۲۸/ آرڈیننس جاری کرکے حکومت کی زمامِ کار بظاہر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو سونپ دی ہے۔ بظاہر ان آرڈیننسوں کے اجرا میں سابقہ تحفظ کی توسیع کو نئی قانونی شکل دینے کے لئے کئی مزید اقدامات کی توقع کی جارہی ہے۔ ایک طرف صدر زرداری کے خصوصی معتمدین جنیوا سے سوئس منی لانڈرنگ کیس کے مستند ریکارڈ اپنے قبضہ میں کررہے ہیں جس کی لمحہ بہ لمحہ تفصیل روزنامہ جنگ میں یکم دسمبر۲۰۰۹ء کو شائع ہوچکی ہے تو دوسری طرف عدالت ِعظمیٰ نے بھی این آر او کا مسئلہ ۷ دسمبر کو اپنے ہاں طلب کرلیا ہے اور یہ عندیہ دیا ہے کہ عدلیہ کسی شخصیت سے قانون سے بالا تر اور امتیازی سلوک نہیں کرے گی۔
این آر او میں ۹ ہزار کے قریب ممتاز سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی بدعنوانیوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے جن میں سے ۷۷۹۳ اَفراد کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے۔ اس بدنام زمانہ صدارتی آرڈیننس کے علاوہ ایک کھرب اور ۶۵ ارب روپے کی دولت بھی اپنے قرضے معاف کرا کے قومی خزانے سے ہضم کی جارہی ہے۔ بدعنوان سیاستدان ایک دوسرے کے تحفظ کے لئے سیاسی سمجھوتے اور مخالفانہ بیان بازی کی روک تھام کررہے ہیں ۔ ملک میں ان دنوں
[1] صحیح بخاری :۲۲۳