کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 102
میں تذکرۂ عالم اسلام کی حالت ِزار پر چل نکلا۔ اس وقت پاکستان کے صدر جناب رفیق تارڑ تھے۔ ان سے عبدالجبار شاکر کی گاڑھی چھنتی تھی۔ جانے یہ محاورہ کس طرح اُردو والوں میں چل نکلا۔ حالانکہ مشاہدہ یہ ہے کہ جو گاڑھی ہو، وہ تو چھنتی ہی نہیں لیکن ہمیں اس سے کیا غرض، یہ اُردو والوں کا کام ہے، وہ جانیں ۔ بہرحال عبدالجبار شاکر کے ساتھ رفیق تارڑ کی دوستی گاڑھی تھی، اتنی گاڑھی کہ چھنتی ہی نہ تھی۔ میں نے عرض کیا: قبلہ سارا یورپ مسلمانوں کو دہشت گرد کہتا ہے اور اپنی زبان میں وہ ہمارے لیے Terrorist کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ دیکھئے جب سے جناب رفیق تارڑ صدر بنے ہیں، اس وقت سے سارا یورپ ان کو رفیق Terrer کہتا ہے۔ میری بات سن کر عبدالجبار شاکر بہت محظوظ ہوئے۔ کافی دیر تک ہنستے رہے، مجھے داد دیتے رہے۔ پھر کہنے لگے: تارڑ صاحب سے میری ملاقات چار روز بعد طے ہے۔ میں اُنہیں یہ لطیفہ ضرور سناؤں گا۔ یہ کہہ کر معاً بولے کہ آپ ہی کا نام لے کر سناؤں گا۔ مجھے ان کی اس بات پر رشک ہوا۔ جو شخص الفاظ کے حوالے سے بھی اتنا محتاط ہو، اس کے ہاں مادی چیزوں کے بارے میں احتیاط کا عالم کیا ہوگا۔
خاموش نہ بیٹھنے والا، گھر کو منتقل نہ کرنے والا، زندگی کی اس روش کو چھوڑ کر منوں مٹی تلے منتقل ہو چکا ہے۔ کاش زمین کی زبان ہوتی تو میں نوشہرہ ورکاں کی مٹی کے ذرّات سے پوچھتا : تونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے۔ وہ میرا محبوب تھا، وہ میرا محب تھا۔ میرے محبوبوں کا محب تھا۔ اب وہ محبت ترک کرکے گریباں سی چکا۔ وہ وہاں چلا گیا جہاں سب کو جانا ہے۔ دنیا والے سفر کریں تو لوٹ کر اپنے گھر ضرور آتے ہیں ۔ امیر خسرو نے کہا تھا:
سانجھ پئی چوں دیس
لیکن عبدالجبار شاکر اس سفر پر چلا گیا جہاں سے کوئی مسافر لوٹتا نہیں ۔ لیکن ٹھہریئے … وہ تو یہ سبق دے گیا ہے کہ میں دنیا میں سفر پر آیا تھا۔ اپنے حصہ کا کام کر چکا، اب اپنے گھر لوٹ کر جارہا ہوں :
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے !
اے نوشہرہ ورکاں کی خاک! میں تجھ سے مخاطب ہوں اور صرف یہ کہتا ہوں :
اے خاک تیرہ دلبر مارا عزیز دار ایں نورِ چشم ما است کہ در برگرفتہ ای