کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 101
کتابوں کا مجموعہ ہے۔ اسے اُنہوں نے بیت الحكمة کا نام دیا۔ یہ بیت الحكمة اپنی بعض خصوصیات میں پاکستان کی بڑی سرکاری و غیر سرکاری لائبریریوں کو شرماتا ہے۔
اہل علم جانتے ہیں کہ ہندوستان کے شہر پٹنہ میں ایک بڑی لائبریری ہے جس کا شمار دنیا کی اہم لائبریریوں میں ہوتاہے بلکہ شہر پٹنہ کی وجہ شہرت اسی بڑی لائبریری ہی کی رہین منت ہے۔ جو ’خدا بخش لائبریری پٹنہ‘ کے نام سے موسوم ہے۔ خدا بخش بھی کتابوں سے محبت کرنے والا عام انسان تھا۔ پیشہ کے اعتبار سے سول جج کے عہدہ پر فائز تھا۔ مہینہ کے بعد حق الخدمت کے طور پر جو تنخواہ ملتی، اس میں سے اپنی گزر اوقات کے پیسے رکھ کر بقیہ کی کتابیں خرید لیتا اور اپنے گھر کی الماریوں میں سجا لیتا تھا۔ بوقت ِانتقال یہی ذخیرہ اس کی وراثت تھا۔ کتابوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ اس کا انتظام و انصرام حکومت ِوقت کو سنبھالنا پڑا۔ اس وقت سے یہ لائبریری حکومت ِہند کی تحویل میں ہے اور اسی عظیم شخصیت خدا بخش کے نام سے موسوم ہے جس میں کتابوں کی تعداد لاکھوں کو چھو رہی ہے۔ دنیا میں طبع ہونے والا کوئی جرنل ایسا نہیں ہے جو اس لائبریری میں موجود نہ ہو۔
عبدالجبار شاکر کی وراثت بھی درہم و دینار نہیں بلکہ وہ عظیم لائبریری ہے جو اس نے اہل علم اور اہل پاکستان اور اپنی اولاد کے لیے ورثہ میں چھوڑی ہے۔ یقینا ان کی صلبی اولاد اس ذخیرہ کی شرعاً وارث ہے۔ احتیاط کا تقاضا ہے کہ عبدالجبار شاکر کا یہ عظیم علمی ورثہ ایسے شکاریوں کے ہتھے نہ چڑھے جو کتابوں کو سیروں اور منوں میں تولتے ہیں اور مال کھرا کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں ۔ ہم نے بڑے بڑے اہل علم کی کتابوں کو فٹ پاتھ پر فروخت ہوتے دیکھا ہے اور بعض عظیم لکھاریوں کی کتابیں ردّی کے بیوپاریوں کے ہاں دیکھی ہیں ۔ جو پھر پنساریوں کے ہتھے چڑھیں اور اُنہوں نے ان کے لفافے بنائے اور ان میں ٹڈی مار پوڈر اور چوہے مار گولیاں باندھنے سے بھی گریز نہ کیا۔ عبدالجبار شاکر کی لائبریری ایک خزانہ ہے جس کا پہرہ دینا ضروری ہے۔ اگر اس پہرہ کا خاطر خواہ انتظام کیا گیا تو یقینا یہ علمی ورثہ مرحوم کی طرف سے صدقہ جاریہ ہوگا جو قیامت تک ان کے حسنات میں اضافہ کرتا رہے گا۔
عبدالجبار شاکر انتہائی امین تھے۔ کسی کے الفاظ تک کو امانت خیال کرتے۔ ایک ملاقات