کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 100
میری کتاب ’تذکارِ قرائ‘ کی طباعت کی اطلاع کے ساتھ مبارکباد دے رہے تھے۔ مذکورہ کتاب ان کے بیٹے رفیع الدین نے شائع کی تھی جو’ نشریات‘ کے نام سے ایک طباعتی ادارہ چلا رہے ہیں ۔ فرمانے لگے: کتاب چھپ چکی ہے، صرف جلد بندی کے مراحل باقی ہیں ۔ ایک ہفتہ کے دوران اس مرحلے کی تکمیل بھی ہو جائے گی۔ عبدالجبار شاکر کا ایک وصف یہ تھا کہ وہ علمی کام کرنے کی تحریک ضرور دیتے تھے۔ فرمانے لگے: آئندہ کس موضوع پر کام کرنے کا ارادہ ہے۔ میں نے عرض کی: ارادہ نہیں بلکہ بہت سا کام مکمل ہے۔ مجودِ اوّل و اعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان سے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ان مساعی اور فرمودات نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اندازِ تلاوت اور آپ کی تلاوت کے سحر پر کافی کچھ لکھ چکا ہوں، تھوڑا کام باقی ہے۔ سنتے ہی انتہائی خوشی کا اظہار کیا اور کہا: یہ موضوع تمہارا ہی ہو سکتا تھا۔ یقینا موضوع کا حق اَدا ہوگا۔ پھر فرمانے لگے، طاہر جلد تکمیل کیجئے۔ بھائی کی اس کتاب پر مقدمہ میں خود لکھوں گا اور نشریات ہی شائع کرے گا اور سیرت کے صدارتی ایوارڈ کے لیے کتاب پیش کی جائے گی۔ لیکن ایک احتیاط ضرور ملحوظ رکھئے: آیات و احادیث کی صحت بہت ضروری ہے۔ کتاب خواہ کتنی ہی اچھی ہو، ہمارے بعض کرم فرما اس حوالے سے کتاب مسترد کرانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ میں نے عرض کی، مقدور بھر کوشش کروں گا۔ یہ میرے ساتھ ان کی آخری گفتگو تھی۔ ’تذکارِ قرائ‘ طبع ہو کر پہنچی تو دو روز بعد ہی اخبار میں خبر تھی، عبدالجبار شاکر چل بسے۔ دل گرفتہ ہوا، کاش ’’جیتا کچھ دن اور۔‘‘ میری خوشی کو دوبالا کرتا، کتاب کی تقریب شناسائی میں شریک ہوتا۔ اپنی مسجع و مقفیٰ گفتگو سے ’تذکارِ قرائ‘ کو مزید اُجالتا۔ لیکن قرآن کا فیصلہ اٹل و حتمی: ﴿ وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہ وَلکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾(یوسف:۲۲۱) ’’لوگ اس حقیقت سے کتنے بے بہرہ ہیں کہ اﷲ ہی کا فیصلہ ہمیشہ غالب آکر رہتا ہے۔‘‘ …………٭ ………… لوگ گھر بیوی بچوں کے لیے بناتے ہیں ۔ اُنہوں نے گھر بیوی بچوں کے لیے نہیں بلکہ کتابوں کو جمع کرنے کے لیے بنایا۔ وہ کتابیں جمع نہیں کرتے بلکہ کتابوں کو پالتے تھے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ایک انسان اپنی اولاد کی پرورش کرتا ہے۔ ان کا کتب خانہ اَن گنت