کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 249
رہے۔ اُنہوں نے بہت سی کتب کے دیباچے اور مقدمے لکھے اور بے شمار ٹی وی پروگراموں میں علمی وادبی اور پیچیدہ مسائل کے میزبان اور مہمان کے طورپر شریک رہے۔ زبان وادب پر ان کی مہارت اور ملکہ کو ہر مقام پر سراہا جاتا ۔ لاہور میں ملتان روڈ پر منصورہ کے بالمقابل بیت الحکمت کے نام سے وسیع لائبریری قائم کی جس کا شمار ملک کی معروف لائبریریوں میں ہوتا ہے جہاں تفسیر ،سیرت ، تقابل ادیان ، قوانین، علومِ اسلامیہ ، اُردو فارسی ادب اور عربی لٹریچر کی ہزارہا کتابیں اور نایاب مخطوطات ومقالات اس لائبریری کی زینت ہیں ۔ وہ تعارف کرایا کرتے کہ ان کی لائبریری میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے نادر اور بیش قیمت ذخیرہ کتب موجود ہے۔ آج کل وہ فیصل مسجد، اسلام آباد کے مقبول خطیب اور بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی میں الدعوۃ اکیڈمی کے ڈائریکٹر تھے۔ پروفیسر صاحب کا اچانک سانحۂ ارتحال ملک بھر میں بجلی بن کر گرا۔ جامعہ سلفیہ کے پرنسپل جناب محمد یٰسین ظفر نے جب ان کی وفات کی غم ناک خبر سنائی تو چند لمحات سکتہ میں گذرے۔ ماضی قریب میں یکے بعد دیگرے جو علماء وفضلا رحلت کر گئے تھے، ابھی تو ہم ان کی جدائیوں کے زخم سہلا رہے تھے کہ یہ افسوسناک خبر سننے کو ملی۔ بہر حال ہم ربّ العالمین کی رضا پر راضی ہیں ۔ اس کے ہر اَمر میں حکمتیں کار فرما ہیں ۔ شیخوپورہ میں مرحوم کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی، نمازِ جنازہ میں ملکی و ملی قائدین ، دینی وسیاسی جماعتوں کے سربراہ ، وکلا، ہائی کورٹس کے جج حضرات اور علماء و صحافی دیکھنے میں آئے بلکہ تمام طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ ہزاروں کی تعداد میں شامل تھے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی بھرپور دینی وملی اور ملکی خدمات کو قبول ومنظور فرما کر ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے خاندان وحلقہ احباب کو صبرو حوصلہ کی توفیق دے۔آمین یا ربّ العالمین!