کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 248
مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ ان کے بیان وکلام میں ذخیرۂ الفاظ کی ایسی فراوانی ہوتی کہ حاضرین عش عش کر اُٹھتے اور بے پناہ داد دیتے۔
اقبالیات کے موضوع پر وہ اہل فکر ودانش میں ایک اتھارٹی سمجھے جاتے۔ آغا شورش کاشمیری کے بعد مجلس اقبال کے روح رواں ہمارے ممدوح پروفیسر عبد الجبار شاکر ہی ہوتے۔ علامہ اقبال کی شاعری وفلسفہ اور فکری آگہی پر ملک اور بیرونِ ملک منعقد ہونے والی مجالس میں ان کی شرکت رہتی۔یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک، بھارت وبنگلہ دیش میں عالمی سطح کے سمینار ز اور مذاکروں میں اُنہیں ایک منجھے ہوئے، معتدل عالم دین اور سکالر و دانشور کے طور پر مدعو کیا جاتا۔
ان تمام اوصاف وفضیلتوں کے باوجود ان کی طبیعت میں تواضع وانکساری اور سادگی تھی۔ وہ بے حد ملنسار اور اسلامی اخلاق واقدار کے لحاظ سے اُجلی سیرت وصورت کے مالک تھے۔ عالی منصب اور بلند مرتبت ہوتے ہوئے بھی ان سے تصنع وتکلف کو کوئی دخل نہ تھا۔ عام بسوں یا تانگوں رکشوں میں آنے جانے کو عار نہ سمجھتے۔ ان کے ایک بیرونِ ملک کے سفر کا احوال ان کے ہم سفر جناب رانا محمد شفیق خان پسروری نے روز نامہ’پاکستان‘میں ۱۵/ اکتوبر کے اپنے کالم میں خوب ذکر کیا ہے کہ ’’وہ ایک مردِ دوریش اور علم وکتابت کے عاشق زار تھے۔ منکسر مزاج ، عبادت گزار اور نیک خو انسان تھے۔ مرنجاں مرنج اور خوش گفتار ایسے کہ ان کی تقاریر وخطابت واقعتا دل کو کھینچنے اور دماغ میں جگہ بنانے والے ہوتے۔‘‘میرے خیال و وجدان میں بلاشبہ وہ ایک ایسی شخصیت بن چکے تھے جس پر ہم بجا طورپر فخر کر سکتے ہیں ۔
پروفیسر صاحب نے جامعہ سلفیہ میں تقریب ِبخاری کے دو تین موقعوں پر حجیت ِحدیث اور محدثین وسلف صالحین کی خدمات پر جو تقاریر کی ہیں ، اگر ان کا ریکارڈ ہو تو ان کی اشاعت سے علماء و اساتذہ اور طلبہ کی معلومات میں اضافہ ہو سکتا ہے، نیز ایک تاریخی وعلمی دستاویز تیار ہو سکتی ہے۔
پروفیسر صاحب فاضل درسِ نظامی، لاء گریجویٹ اور اقبالیات میں ایم فل تھے۔ وہ مختلف کالجز میں تدریسی خدمات انجام دینے کے علاوہ ایک عرصہ ڈائریکٹر پبلک لائبریریز پنجاب بھی