کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 247
حال ہم کو معلوم ہے۔ ان تین برسوں کے حالات میں سے بھی معجزات و خوارق کے سوا کوئی اور حال بہت کم معلوم ہے۔ان انبیا کے علاوہ ہندوستان، ایران اور چین کے بانیانِ مذاہب کی اخلاقی زندگیوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ اس کے لئے دنیا میں کوئی سامان ہی موجود نہیں کیونکہ ان کی اخلاقی زندگی کے ہر پہلو پر ناواقفیت کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ صرف اور صرف اسلام ہی کے ایک معلم کی زندگی ایسی ہے جس کا حرف حرف دنیا میں محفوظ اور سب کو معلوم ہے اور بقول باسورتھ سمتھ کے کہ ’’یہاں (سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ) پورے دن کی روشنی ہے جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر پہلو روزِ روشن کی طرح نمایاں ہے۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم کہ میرے ہر قول اور عمل کو ایک دوسرے تک پہنچاؤ۔ محرمانِ راز کو اجازت تھی کہ جو مجھے خلوت میں کرتے دیکھو، اس کو جلوت میں برملا بیان کرو۔ جو حجرہ میں کہتے سنو، اس کو چھتوں پر چڑھ کر پکارو: (( ألا فلیبلِّغ الشاہد الغائب)) غرض یہ کہ پروفیسر صاحب سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت وعظمت پر فصاحت وبلاغت کے دریا بہاتے چلے جا رہے تھے۔ تقریب کے اختتام پر ہم نے اکٹھے کھانا کھایااور کچھ دیر گفتگو اورگپ شپ رہی لیکن کیا معلوم تھا کہ یہ نشست ان سے آخری ملاقات ثابت ہوگی۔
پروفیسر صاحب نے بارہا فیصل آباد میں علمی و ادبی محفلوں سے خطاب کیا جن میں سے زیادہ تر ان سطور کے راقم کی درخواست و فرمائش پر وہ تشریف لائے۔ مدتِ مدید سے ان سے شناسائی اب خاصی دوستی میں تبدیل ہو چکی تھی، فرمایا کرتے کہ مصروفیات کے باوجود میں آپ کو انکار نہیں کر سکتا کیونکہ آپ ہمارے اکابر کی روایات کے امین ہیں ۔
پروفیسر صاحب بفضلہ جدید وقدیم علوم کے ماہر اور ایک مفکر ومدبر کے طور پر جانے پہچانے جاتے تھے۔ عصر حاضر کے تقاضوں اور نت نئے مسائل کا حل وہ قرآن وسنت کی صافی تعلیمات سے واضح فرماتے۔ علومِ قرآنیہ اور سنت و سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کا گہرا مطالعہ تھا جو ان کی تحریروں ، علمی کتب پر تقریظات اور حاشیوں سے نمایاں ہوتا ہے۔ ان کے منفرد لہجہ اور طلسماتی مسکراہٹ و خطابت سے سامعین پر ایک چاشنی اورگرویدہ پن طاری ہو جاتا۔ یہ کوئی