کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 244
اگر کوئی شخص کسی بڑے دنیاوی منصب پر فائز ہوجائے یا اللہ تعالیٰ اسے دولت سے نوازیں تو وہ غریب رشتہ داروں سے چھپتا پھرتا ہے کہ کہیں کوئی کام نہ کہہ دے یا پیسے نہ مانگ لے۔ اگرچہ اس رویے کے ذمہ دار وہ غربا بھی ہوتے ہیں جو اصلاحِ احوال کی بجائے دوسروں کے وسائل پرنظر رکھتے ہیں ۔ مناسب تربیت اور تعاون کے ذریعے ان کی اصلاح ہوسکتی ہے۔ اخلاقِ رذیلہ کی مثال ہر وقت ہنسی مذاق یا غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرنا بھی ہے۔ بسا اوقات مذاق میں ایسی بات منہ سے نکل جاتی ہے جو دوسرے کو ناگوار گزرتی اور آپس میں دوری کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں دنیا میں اس قدر مشغول ہوجانا کہ رشتہ داروں سے ملنے کے لیے وقت ہی نہ ملے یا رشتہ داروں سے ملتے وقت سرد مہری کا مظاہرہ کرنا، میاں بیوی کے درمیان ناچاقی، رشتہ داروں کی کوتاہیوں پر صبر نہ کرنا ، وراثت کی تقسیم میں تاخیر، حسد، بُغض اور دیگر اخلاقی برائیاں قطع رحمی کی وجہ بن جاتی ہیں ۔ صلہ رحمی کے حوالے سے چند گزارشات ہمیں اپنے تمام رشتہ داروں کے ساتھ اپنے معاملات پر ایک نظر ڈالنی چاہئے۔ اس سے ہمیں اندازہ ہوجائے گا کہ کن کے ساتھ صلہ رحمی اور کن کے ساتھ قطع رحمی کامعاملہ چل رہا ہے۔ اگر ہمیں کسی خرابی کا علم اور احساس ہی نہ ہوگا تو اس کی اصلاح کیسے ممکن ہے؟ جب ہمیں ناراض لوگوں کا پتہ چل جائے تو ان سے صلہ رحمی کرنے کے طریقے سوچیں اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں ، وہ ضرور ہماری مدد کرے گا۔ کیونکہ اسی کے ہاتھ میں تمام لوگوں کے دل ہیں اور وہ دلوں کو پھیرنے والا ہے۔ جو لوگ ہم سے راضی ہیں ،وہ تو خوش ہیں ہی۔ ناراض لوگوں کو منانا اصل کام ہے۔ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری رہنمائی کررہا ہے: عن أبي ہریرۃ أن رجلاً قال: یا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم إن لي قرابة أصلھم ویقطعوني وأحسن الیھم ویسیؤن إلي وأحلم عنھم ویجھلون علي فقال صلی اللّٰه علیہ وسلم : لئن کنت قلت فکأنما تسفھم الملّ ولا یزال معک من اللّٰه ظھیر علیھم ما دمتَ علی ذلک)) (صحیح مسلم:۶۵۲۵) ’’ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورکہا: میرے کچھ رشتہ دار ہیں ، میں ان سے صلہ رحمی کرتاہوں اور وہ قطع رحمی کرتے ہیں ۔ میں ان سے احسان