کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 243
نہیں جبکہ ان تمام رسومات کا تعلیمات اسلامیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔مثال کے طور پر شادی کے موقع پر کسی کی دی ہوئی رقم سے زیادہ رقم سلامی کے طور پر دینا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ اپنی حیثیت کے مطابق تحفہ دیا جائے تو ٹھیک وگرنہ شکایت ہوگی۔ یہ تصور سود کے مشابہ ہے یاپھر غمی کے موقع پر بعض رشتہ داروں کے لئے ضروری تصور کیا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کو لازما ًکھاناکھلائیں ۔ یہ رشتہ دار عموماً گھر کی بہو کے عزیز و اقارب ہوتے ہیں ۔ یہ ہندو تہذیب کے زیراثر ہے۔ اسلام نے اہل محلہ اور صاحب ِحیثیت لوگوں کو میت والے گھرانے سے تعاون کی تلقین کی ہے نہ کہ محض مخصوص رشتہ داروں پر اور پھر مقامی یا غیر مقامی تمام لوگ کھانے میں شریک ہوکر اسے ایک بڑا فنکشن بنا دیتے ہیں جس کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ جو باتیں اخلاقیات اور باہمی تعاون سے متعلق تھی ہم نے اُنہیں زندگی کا لازمہ بنا لیاہے۔اسراف و تبذیر کے ذریعے پیسے کا ضیاع بھی بڑھ گیا ہے۔ باہمی تعاون اور خیر خواہی کا جذبہ تو مفقود ہوتا گیا اوربے جا رسومات باقی رہ گئیں ۔ ایسے میں لوگ ان مواقع پر حاضر ہونے سے اعراض کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جنہیں مجبوراً شامل ہونا پڑتا ہے وہ خاندان میں ناک رکھنے کی خاطر ان رسومات کو پورا کرتے ہوئے قرض اور بہت سی دیگر خرابیوں کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ یہ عیب صرف غریب لوگوں میں ہی نہیں پائے جاتے بلکہ ہر طبقے کے لوگوں نے اپنے اپنے خود ساختہ انداز اور معیار بنا رکھے ہیں ۔ ان رسومات سے جان چھڑا کے صلہ رحمی کے زیادہ مواقع پیدا کئے جاسکتے ہیں ۔ 3. دین سے دُوری: جب کوئی شخص کمزور ایمان والا ہو، دینی اُمور کی پرواہ نہ کرے تو اسے قطع رحمی کی سزاؤں کی بھی پرواہ نہیں رہتی اور نہ ہی وہ خوف ِخدا کے تحت رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر وہ کسی سے ملتا بھی ہے یا حسن سلوک کا معاملہ کرتا ہے تو اس کے پیش نظر عموماً دو ہی باتیں ہوتی ہیں یا تو وہ برادری کی رسومات بجا لاتا ہے یا ذاتی مفاد مقصود ہوتاہے۔ اس طرح پیار و محبت اور خیر خواہی کے جذبات مخصوص رشتہ داروں تک محدود ہوجاتے ہیں اور اسلام کا پیش کردہ صلہ رحمی کا جذبہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ 4. اخلاقِ رذیلہ: اخلاق رذیلہ کی بہت سی صورتیں قطع رحمی کا سبب بنتی ہیں مثلاً تکبر و اَناپرستی۔