کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 242
ہوئے وہ حتیٰ الوسع اس سے بچنے کی کوشش کرے گا۔ رشتہ داروں کی طرف سے اگر کوئی ناپسندیدہ بات سامنے آئے تو اس کی اچھی تاویل کی کوشش کرنی چاہئے اور اگر وہ معذرت کریں تو اسے قبول کرنا چاہئے۔ ہر وقت بدلہ لینے کی فکر نہیں کرنی چاہئے۔ جہاں تک ہوسکے، بُرائی کا بدلہ احسان سے دینا چاہئے۔ البتہ کسی کی تربیت کے لیے اور غیر شرعی کاموں پرتنبیہ کے ساتھ ناراضگی کا اظہار بھی ہونا چاہئے۔ ہنسی مزاح میں اعتدال کا دامن کسی صورت نہیں چھوڑنا چاہئے۔ بسا اوقات یہ ہنسی مزاح حد سے بڑھ جاتا ہے اور بڑے فتنے کا سبب بنتا ہے۔ جس حد تک ممکن ہو، ایک دوسرے کو تحفے تحائف دیتے رہناچاہئے۔ حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اس سے محبت بڑھتی ہے۔مالی معاملات میں تعاون کرنا چاہئے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ خاندان کاایک باہمی تعاون کافنڈ بنا لیا جائے جس میں ہر فرد بقدرِ استطاعت حصہ ڈالتا رہے۔ اس فنڈ سے خوشی، غمی کے موقعوں پر خاندان کے ضرورت مند افراد سے تعاون کیا جائے۔ صلہ رحمی کے لیے ایک اہم صورت یہ ہے کہ سادہ اور شرعی طرزِ زندگی اختیار کی جائے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو اَنا کا مسئلہ نہیں بنا لینا چاہئے۔ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ اور غمی کے مواقع کے لیے کچھ عجیب و غریب رسومات رائج ہوچکی ہیں جن کوپورا کرنے کے اصرار پر جھگڑے ہونا معمول کی بات بن چکی ہے۔ لاحاصل باتوں میں اُلجھ کر توانائیاں اور صلاحیتیں ضائع کرنے سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ ہربڑے کا احترام اور چھوٹے پر شفقت ہونی چاہئے۔ قطع رحمی کے اسباب 1. جہالت: قطع رحمی کا سب سے بڑا سبب شعوری یا لاشعوری جہالت ہے۔ عموماً لوگوں کو اس بارے میں شرعی تعلیمات کی واقفیت نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ صدیوں سے رائج رسوم و رواج پرعمل پیرا ہیں ۔ ہمیں یہ مسئلہ عام مجالس میں موضوعِ سخن بنانا چاہئے جس سے بہت سے لوگ شعوری طور پر صلہ رحمی کی کوشش کریں گے۔ 2. غربت: بنیادی طور پر غربت قطع رحمی کا سبب نہیں ہے لیکن ہم نے اسے اہم سبب بنا لیاہے۔ اس کی وجہ جہالت اور برادری کلچر کی اندھا دھند تقلید ہے۔ ہم نے خوشی اور غمی کے مواقع پر ایسی رسومات اختیارکی ہوئی ہیں جنہیں پوراکرنا غریب آدمی کے بس کی بات