کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 236
ہیں اور اعلیٰ خاندانی روایات کاحامل ہمارا معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہے جونہ توروایتی مثالی معاشرہ رہا اور نہ ہی اسلام کے زرّیں اُصول اس میں نظر آتے ہیں ۔
شہری آبادی کی حالت زیادہ قابل رحم ہے۔ جہاں مختلف علاقوں کے لوگ آکر آباد ہورہے ہیں ۔ جن کی حالت یہ ہے کہ لوگ اپنے ہمسائے کے نام تک سے بے خبر ہوتے ہیں ۔ ایسے میں کسی مضبوط عقیدے اور عمدہ تربیت کے بغیر انسانی ہمدردی یا اسلامی بھائی چارے کی فضا کا پیدا ہونا مشکل ہے۔ ایسے ماحول میں برائیاں جلدی اور آسانی سے پھیلتی ہیں ۔ دیہات یا خاندانی کلچر میں ایک آدمی کو کسی غیر اخلاقی کام کرنے کی جلد جرات نہیں ہوتی۔ اس کے دل میں خاندان، برادری، محلہ دار یا بزرگ شخصیات کاخوف اور حیا ہوتاہے۔ وہ کوئی ایسی حرکت نہیں کرناچاہتا جس کی وجہ سے مذکورہ بالا شخصیات میں سے کوئی اسے ہدف تنقید بنائے۔ یہ معاشرتی دباؤ اسے بہت حدتک برائیوں سے روکے رکھتاہے۔
جدید دور میں آزادی اور حقوق کے دل فریب اور پُرفتن نعرے کی آغوش میں مادر پدر آزاد معاشرہ تشکیل پارہا ہے جس میں ایک طرف کسی قسم کی قدغن نہ ہونے کی وجہ سے گناہ اور غیراخلاقی سرگرمیاں معاشرے کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں اور دوسری طرف خاندانی نظام کے حصے بخرے ہورہے ہیں ۔ خاندانوں میں رائج عمدہ روایات دم توڑ رہی ہیں ۔ صلہ رحمی، باہمی تعاون، غم خواری اور انسانی ہمدردی کا وجود عنقا ہوتا جارہا ہے۔ ان حالات میں جب اسلامی اُصولوں کو بھی نظر انداز کیا جاتاہے تو اس سے تیزی سے بگڑتے ہوئے معاشرے کی ابتری میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
اسلام جہاں معاشرے کو گناہوں سے بچانے کے لیے امربالمعروف و نہی عن المنکر کا وسیع نظام دیتا ہے، وہاں خاندانوں اور ان کی عمدہ روایات کو تحفظ دینے کے لیے صلہ رحمی کے اُصول کو لازم قرار دیتا ہے۔ اسلامی حکومت ہر فرد کو بنیادی ضروریات مہیا کرنے کے اسباب پیدا کرتی ہے۔اس کے بعد رشتہ داروں اور تمام لوگوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صلہ رحمی اور اسلامی اخوت کے جذبے سے محروم طبقے کا دست و بازو بنیں ۔ اس طرح ایک صحت مند اور مثبت معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر محروم طبقوں کو کسی طرف سے جذبہ خیرسگالی یا تعاون کی کوئی صورت نظر نہ آئے تو وہ پس کر رہ جاتے ہیں اور جرائم کی دنیا میں قدم رکھ کر