کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 232
کے حق میں برابر ہے۔ گویا یہ لاعلمی لازم جانو کہ ہمارے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے جو یہ بتائے کہ انسان جو چاہتا ہے، اسے چاہنا چاہئے یا نہیں ؟ پس جتنا زیادہ وہ دنیا پر تصرف کرتا ہے اتنی ہی زیادہ آزادی کا وہ مستحق ہوتا چلا جاتا ہے۔ پس فرد اپنی ذاتی زندگی میں جو بھی خواہشات رکھنا چاہے، رکھ سکتا ہے اس تحدید کے ساتھ کہ وہ خواہش اُصول آزادی کو رد نہ کرے۔ پس ہیومن رائٹس کے مطابق اخلاقیات کی بنیاد صرف انسانی خواہشات ہیں ، کسی شے کی قدر کا انحصار صرف اس بات پر ہے کہ کوئی انسان اسے کتنی شدت کے ساتھ اختیار کرتا ہے، بقول سارتر ’’اہم بات یہ نہیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ آپ کیسے چاہتے ہیں ۔‘‘ اگر ہنری زنا کرنے سے زیادہ اور کتاب پڑھنے سے کم لذت حاصل کرتا ہے تو وہ زنا کو بدرجہ کتاب، زیادہ قدر دینے کا حقدار ہوگا لیکن اسے بش کا یہ حق تسلیم کرنا ہو گا کہ وہ کتاب پڑھنے سے حاصل شدہ لذت کو زنا سے حاصل شدہ لذت کے مقابلے میں زیادہ قدر دے سکے۔ تعین قدر کے اس تصور میں ہیومن آزاد ہے کہ وہ قدر کو اپنے ارادہ کے مطابق متعین کرے، لیکن قدر کا تعین اس طریقہ سے کیا جائے گا کہ ہر human being کو قدر کا تعین اپنے ارادے کے مطابق کرنے کا اختیار حاصل ہو۔ واضح رہنا چاہئے کہ نفس لوامہ خواہشات کو صرف احکامِ الٰہی کے سامنے تول کر ہی پرکھ سکتا ہے اور اگر انسان احکاماتِ الٰہی سے انکار کردے تو روح اور نفس کا تعلق کمزور پڑ جاتا ہے اور نفس امارہ نفس لوامہ پر غالب آجاتا ہے۔ مشہور فلسفی ہائیڈیگر کہتا ہے کہ مغربی علمی تناظر میں ’نفس لوامہ کی بحث صرف خاموشی ہے‘ (discourse of discriminatury self is pure silence)۔ چنانچہ ہیومن رائٹس فریم ورک اختیار کرنے کا واضح مطلب خیر کو فرد کا حق قرار دینا ہے اور ایسا ماننا اثباتِ اخلاقیات کے امکان کو ردّ کرنا ہے۔ اس مقام پر یہ دھوکہ نہیں ہونا چاہئے کہ انکارِ اخلاقیات کا مطلب یہ ہے کہ ہیومن رائٹس کسی ماورائے اخلاق (amoral)نظم اجتماعی کی بنیاد بنتا ہے، بلکہ درحقیقت یہ غیر اخلاقی (immoral) نظم کی تشکیل و فروغ کا باعث بنتا ہے۔ یہ فلسفہ نفس پرستی کے تمام ذلیل ترین مظاہر کو عام کرنے نیز معاشرے میں ان کی اشاعت