کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 230
ہی اس میں کسی مخصوص تصورِ خیر کی رعایت کی جانی چاہئے۔ پس جب ہم ’ہیومن رائٹس‘ کی تشریح قرآن و سنت سے اَخذ کرنے کی بات کرتے ہیں تو تضاد بیانی کرتے ہیں ، وہ ایسے کہ قرآن و سنت سے ماخوذ نظامِ حقوق در حقیقت مخصوص (اسلامی) تصورِ خیر کا عکاس ہوگا اور یہ ہیومن رائٹس کے بنیادی فلسفے ہی کا ردّ ہے۔ چنانچہ قرآن وسنت سے اخذ کردہ حقوق کی تفسیر کو ’حقوق العباد‘ تو کہا جا سکتا ہے مگر ہیومن رائٹس نہیں ۔
٭ پھر جیسے بتایا گیا کہ ہیومن رائٹس مخصوص علمی تہذیب سے برآمد ہونے والی ایک علمی اصطلاح ہے اور اصطلاح کو اس کے تاریخی و اَقداری پس منظر سے ہٹا کر استعمال کرنا ممکن نہیں ہوتا بلکہ اپنی علمیت کو کسی دوسری تہذیبی اصطلاح میں بیان کرنے کا مطلب دوسرے تہذیبی تصورات کو اپنی علمیت میں در اندازی کا موقع فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کسی تہذیبی اقدار کے حاملین اس بات پر کبھی سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں ہوتے کہ ان کے شعائر کی نمائندہ اصطلاحات کو کسی دوسری تہذیب کے لوگ اپنے خود ساختہ معنی میں استعمال کرکے عام کرنے کی کوشش کریں ۔ مثلاً ہمارے ہاں قادیانی خود کو ’مسلمان‘ اور اپنے مذہب کو ’اسلام‘ کہتے ہیں مگر ہم اصطلاحِ ’اسلام‘ کے اس فکری اغوا پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے اور نہ ہی ’قادیانی اسلام‘ کی کسی اصطلاح کو برداشت کرنے پر تیار ہوتے ہیں بلکہ ہم قادیانیوں کو ہمیشہ ’خارج از اسلام‘ اور ’کافر‘ ہی کہتے ہیں کیونکہ ہمارے نزدیک اسلام صرف وہی ہے جو معتبر ذرائع کے ذریعے قرآن و سنت اور اجماعِ اُمت کی صورت میں نسل در نسل ہمیں منتقل ہوا، اس کے علاوہ اسلام کسی شے کا نام نہیں ۔ بالکل اسی طرح ہیومن رائٹس بھی ایک تہذیب کی نمائندہ اصطلاح ہے جسے اگر ہم اسلامیانا چاہیں تب بھی اہل مغرب اس کی کسی مسخ شدہ تشریح کو سند ماننے پر ہرگز تیار نہیں ہوں گے۔ آپ اپنی خوشی کے لئے جو اصطلاح وضع کرنا چاہیں کیجئے مگر یہ اُمید رکھنا کہ مغرب آپ سے اسی اصطلاحی معنی پر مکالمہ کرے گا، خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہیں ۔[1]
یاد رہنا چاہئے کہ ہیومن رائٹس فریم ورک کوئی ایسی شے نہیں جو اسلامی تاریخ و علمیت سے برآمد ہوئی ہو۔ مگر جب ہم ہیومن رائٹس اور جمہوری فریم ورک کی آفاقیت کو قبول کرکے اسلامی تاریخ کو اس پیمانے پر جانچنے اور کسنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایک طرف ہم اس کی