کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 229
بدترین شکلوں میں سے ایک ہے۔ ہیومن رائٹس وغیرہ جیسے تصورات کی اسلامی تشریحات پیش کرنے کی وجہ سرمایہ داری کو ایک مکمل نظامِ زندگی کے طور پر نہ سمجھ پاناہے، مسلم مفکرین بالعموم مغربی انفرادیت (ہیومن بینگ)، نظامِ معاشرت (سول سوسائٹی)، معیشت (مارکیٹ) اور ریاست (جمہوریت) کو باہم مربوط اکائیوں کے بجائے منتشر اَجزا تصور کرکے فرض کرتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک جزو کو دیگر تمام اجزا سے کاٹ کر اپنانا ممکن ہے۔
٭ اوپر واضح کیا گیا تھا کہ ہیومن رائٹس کا جواز کسی مذہبی علمیت یا ثقافتی روایت وغیرہ سے اَخذ نہیں کیا جاتا بلکہ اُنہیں ایسے ’فطری حقوق‘ فرض کیا جاتا ہے جو اپنا جواز از خود ہیں [1] اور جنہیں کسی دیگر تصورِ خیر مثلاً مذہب وغیرہ کے نام پر منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے مقابلے میں اسلام فرد کے کسی ایسے حق کا قائل نہیں ، جس کا جواز اسلام سے باہر یا ماورا کسی اُصول سے فراہم کیا جاسکتا ہو۔ بندہ از خود کسی حق کا اہل ہے ہی نہیں بلکہ اس کے ربّ نے بطورِ عنایت اسے چند حقوق عطا فرمائے ہیں ، جو اللہ کی بندگی کے نتیجے میں حاصل ہوتے ہیں ۔ اور اس کے حقو ق وہی ہیں جو شارع کے قول سے ثابت ہوتے ہیں ۔
یہ بھی واضح رہے کہ ہیومن رائٹس ’ایک مجرد خودمختار انفرادیت ‘ (Abstract Human) کے حقوق ہیں اور حقوق کی اس تفسیر میں فرد کی واقعاتی حیثیت کی کوئی رعایت موجود نہیں ۔ اس کے مقابلے میں شارع کی عطا کردہ تقسیم حقوق میں ’مسلمانیت و کفر‘، ’مرد و عورت‘، ’تقوی وفسق‘ وغیرہ جیسی صفات بنیادی اہمیت کی حامل ہیں ۔ ہیومن رائٹس کے در پردہ یہ فلسفہ کارفرما ہے کہ اجتماعی عدل کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ حقوق کا تعین تمام تصوراتِ خیر سے ماورا رہ کر کیا جانا چاہئے یعنی حقوق کی تعیین و تفسیر کسی مخصوص تصورِ خیر سے اخذ نہیں کی جانی چاہئے اور نہ