کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 228
عملاً انکار ہے۔ Kant کے مطابق human being کا بنیادی وصف اور اس کی اصل 'autonomy' یعنی خود ارادیت اور خود مختاریت ہے۔ چنانچہ ہیومن بینگ وہ تصورِ انفرادیت ہے جس کے مطابق فرد ایک self-determined and self governed being (قائم بالذات اور خود مختار ہستی) ہے۔ اس انفرادیت کا بنیادی ایمان و احساس عبدیت نہیں بلکہ آزادی یعنی بغاوت ہے۔ انسان اپنے ربّ کے ارادے کا مطیع ہوتا ہے جبکہ human being خود اپنا ربّ ہوتا ہے اور وہ جو چاہتا ہے، اسے کر گزرنے کا مکلف سمجھتا ہے۔ لہٰذا ہیومن کا درست ترجمہ ’انسان ‘ نہیں بلکہ ’شیطان‘ ہے (Human is actually demon) کیونکہ ہیومن بالکل اسی طرح اپنے ربّ کا باغی ہے جس طرح ابلیس شیطان ۔ معلوم ہوا کہ ہیومن رائٹس کا معنی ’انسانی حقوق‘ نہیں بلکہ ’شیطانی حقوق‘ ہے۔
بیسویں صدی کا مشہور فلسفی فوکالٹ درست کہتا ہے کہ ’ہیومن ‘ تو پیدا ہی سترہویں اور اٹھارویں صدی میں ہوا۔[1] اس سے قبل اس کا وجود نہ تھا کیونکہ تمام مذاہب میں انسان کا تصور ہمیشہ ’عبد‘ ہی رہا ہے گو کہ اس عبدیت کی معتبر شکل کی تفصیلات میں مذاہب کے درمیان اختلاف رہا ہے۔ پس جب ’ہیومن ‘ کا تصور ہی اسلام کے بنیادی تصورِ انسان سے متصادم ہے تو ’اسلامی ہیومن رائٹس ‘ کی اصطلاح ایجاد کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے ’اسلامی کفر‘۔ ظاہر ہے جس طرح ’اسلامی عیسائیت ‘ کوئی چیز نہیں ہو سکتی، اسی طرح اسلامی ہیومن رائٹس بھی نہیں ہو سکتے۔ ہیومن رائٹس کے مقابلے میں اسلام میں ’حقوق العباد ‘ کا تصو رہے اور حقوق العباد ’ہیومن ‘ کے نہیں بلکہ ’عبد ‘ کے حقوق ہیں ۔ اسلام میں ہیومن کے لئے کوئی حقوق نہیں کیونکہ وہ تو خدا کا باغی ہے۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ ہیومن رائٹس درحقیقت حقوق العبا د کا ردّ ہیں ۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اسلام میں ’حقوق العباد‘ کی اس قدر جامع تفسیرکے ہوتے ہوئے اسلامی تحریکات اور مسلم مفکرین کو ہیومن رائٹس جیسے تصورات کی ضرورت ہی کیوں پڑتی ہے۔ اصل بات جس کی طرف اسلامی تحریکات کو دعوت دینا چاہئے، وہ ہیومن رائٹس کی کوئی اسلامی تعبیر نہیں بلکہ ہیومن رائٹس کی تردید ہے کیونکہ اُلوہیت ِانسانی پر ایمان لانا کفر و شرک کی