کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 227
افسوس کی بات یہ ہے کہ جب خود مغربی فلسفی و مفکرین ہیومن رائٹس فریم ورک کی آفاقیت کے دعووں سے دستبردار ہو رہے ہیں ۔[1] عین اسی وقت مسلم مفکرین ہیومن رائٹس کے حق میں اسلامی تاولیں فراہم کرنے میں مصروف ہیں ۔ چنانچہ ہیومن رائٹس کے حق میں تحریکاتِ اسلامی اور مسلم مفکرین ایک تاویل یہ پیش کرتے ہیں کہ ہم ہیومن رائٹس کی تعریف و تحدید اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کریں گے، یعنی اسلام میں بھی ہیومن رائٹس ہیں مگر وہ نہیں جو مغرب بتاتا ہے بلکہ وہ جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں ۔ یہ دلیل کئی اعتبار سے خلط ِمبحث کا شاخسانہ ہے: ٭ ’ہیومن‘ محض ایک لغوی لفظ نہیں کہ جس کا ترجمہ ’انسان ‘ کرکے اسے جن معنی میں چاہے استعمال کرلیا جائے بلکہ یہ ایک مخصوص تہذیبی اقدار کی عکاس اور مغرب کی علمی تاریخ سے برآمد ہونے والی ایک اصطلاح ہے۔Humanity درحقیقت تحریک ِتنویر (Enlightenment) کا کلیدی تصور ہے اور اس کا ترجمہ ’انسانیت‘ کرنا غلط ہے۔ ’انسانیت‘ کا درست انگریزی ترجمہ 'Mankind' ہے اور یہی لفظ انسانی اجتماعیت کے لیے انگریزی زبان میں ۱۸ ویں صدی سے قبل رائج تھا۔ 'Humanity' کا تصور ’حقیقی انسانیت‘ کے تصور کی رد ہے، ان معنوں میں کہ human being عبدیت اور تخلیقیت کا اُصولاً اور