کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 226
عین اسی چیز کا نام ہے کہ انسان ارادۂ خداوندی سے علیٰ الرغم اپنے لئے جو چاہنا چاہے، چاہ سکے۔ ظاہر ہے خیر کے اس تصور پر ایمان لانے کے بعد گناہ نامی کوئی شے باقی نہیں رہتی، الہامی مذاہب جسے گناہ کہتے ہیں ، مغرب میں عین اسی شے کو اصل خیر، فطرت اور تعقل کہتے ہیں ۔ اسلامی نکتہ نگاہ (جو درحقیقت ’واحد حق‘ نکتہ نگاہ ہے) میں فطرتِ انسانی (معیاری انسانی رویہ) احکاماتِ الٰہی پر عمل پیرا ہونا ہے یہاں تک کہ انسان نفس مطمئنہ کی منزل کو پالے۔ نفس مطمئنہ وہی ہے جو اپنے ربّ کے احکامات پر برضاو رغبت عمل پیرا ہونے کو سعادت سمجھے اور اصلاً یہی انسانی فطرت ہے جسے گناہوں سے آلودہ کرکے انسان ثقیف بنا دیتا ہے۔ ہیومن رائٹس کی آفاقیت کا دعویٰ قبول کرنے کا مطلب یہ مان لینا ہے کہ گناہ کرنا ہی اصل انسانی فطرت ہے[1] یہاں ایک بار پھر مغرب اور مذہب کے تصورِ آزادی کا فرق واضح ہوجانا چاہئے، مغرب آزادی (یعنی بغاوت و نفس امارہ کی پیروی) کو محض انسان کی ’صلاحیت ‘ ہی نہیں سمجھتا بلکہ ایسا کرنے کو ’قدر‘ (اچھا) اور فطری (معیاری انسانی) رویہ مانتا ہے، اس کے برعکس مذہبی تصور آزادی کا مطلب صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ گناہ کرسکے، مگر ایسا کرنا کوئی قدر نہیں کیونکہ قدر آزادی نہیں بلکہ عبدیت (خدا کے حضور اپنی آزادی) سے دستبردار ہوجانا ہے۔