کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 225
چونکہ مغربی مفکرین کے خیال میں ’نفس امارہ ‘ پر عمل کر نا ہی انسانی فطرت اور عقل انسانی کا تقاضا ہے لہٰذا وہ ہیومن رائٹس کو ’آفاقی انسانی میلان ‘ کا نتیجہ قرار دے کر اُنہیں آفاقی و فطری حقوق کا درجہ دیتے ہیں ۔[1] مگر ہم مسلمان نفس امارہ کی پیروی کو ہرگز فطرتِ انسانی نہیں سمجھتے کیونکہ نفس امارہ پر چلنا بمعنی ’صلاحیت ‘ (ability) یقینا انسانی فطرت ہے کہ انسان میں جتنی صلاحیت احسن تقویم بننے کی ہے، اتنی ہی اسفل سافلین کی بھی ہے، لیکن ان معنی میں فطرت نہیں کہ ایسا کرنا ہی کوئی معیاری یا طبعی (normal) انسانی کیفیت یا میلان ہے۔ پس نفس امارہ ہر گز بھی کوئی معیاری نفسی کیفیت نہیں ، البتہ مغربی علمیت میں نفس امارہ ہی فطری نفسی کیفیت مانی جاتی ہے۔[2] کیونکہ مغرب خیر کے جس تصور پر یقین رکھتا ہے، وہ نفس امارہ ہی کا دوسرا نام ہے اور یہی وجہ ہے کہ مغربی علوم میں قانون اور معاہدے (contract) جیسے تصورات تو ملتے ہیں ، لیکن گناہ کا ذکر سرے سے مفقود ہے۔ گناہ کیا ہے؟ یہ کہ انسان اپنے ارادے کو خدا کی مرضی پر غالب کردے، مغرب میں خیر