کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 224
مطلق ہے۔ فروغِ اسلام کیلئے کسی ما قبل اسلام تصور خیر (pre-given conception of good) کا وجود لازم ماننا درحقیقت اسلام کے خیر مطلق ہونے کا انکار کرنا ہے۔ جو حضرات یہ فرض کرتے ہیں کہ ہیومن رائٹس جیسے ماقبل اسلام تصور خیر کا نتیجہ لازماً فروغِ اسلام ہی ہوگا، اُنہیں ان سوالوں کا جواب بھی دینا چاہئے کہ
۱) دنیا کا وہ کونسا ملک ہے جہاں ہیومن رائٹس اور جمہوری اقدار کی بالادستی کے نتیجے میں اسلامی انقلاب برپا ہوا؟
۲) اسلامی ریاست تو درکنار کیا خود لبرل جمہوری ریاستیں دنیا میں کہیں جمہوری طریقے سے قائم ہوسکی ہیں ؟ اگر ایسا ممکن تھا تو امریکہ، برطانیہ، فرانس، چائنہ، روس وغیرہ کے خونی انقلابات کی ضرورت ہی کیوں پڑی؟ آخر قیام جمہوریت کے لئے دنیا پر ظلم و بربریت کے پہاڑ کیوں توڑے گئے اور آج بھی عراق، افغانستان اور پاکستان وغیرہ میں جمہوری اقدار کی حفاظت و فروغ کے لئے قتل و غارت کا بازار کیوں گرم ہے؟
۳) کیا جمہوریت مسلمانوں کی تاریخ و علمیت سے خود بخود برآمد ہوئی یا جمہوری ادارے استعمار نے ان پر بالجبر مسلط کیے؟
ہیومن رائٹس کی آفاقیت کا دعوی: درج بالا بحث سے یہ نکتہ بھی صاف ہوجانا چاہئے کہ ہیومن رائٹس فریم ورک کسی آفاقی سچائی یا حقیقت کا حامل نہیں بلکہ اس کا منبع ما بعد عیسائی (Post-Christian) مغربی معاشرتی تشکیل ہے اور اسی مخصوص تاریخی و تہذیبی تناظر میں اسے سمجھنا ممکن ہے۔ واضح رہے کہ ہیومن رائٹس فریم ورک کا جواز کسی آفاقی، علمی و منطقی دلیل پر نہیں بلکہ ’انسانی فطرت ‘ کے مفروضے پر قائم ہے، یعنی ان کا جواز اس مفروضے پر مبنی ہے کہ یہ حقوق مجرد انسانی فطرت کا تقاضا ہیں ۔ یہ دلیل بظاہر یہ دھوکہ دیتی ہے، گویا واقعی ہیومن رائٹس کوئی آفاقی حقیقت ہیں مگر اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ یہ محض فریب ہے کیونکہ انسانی فطرت (Normal behavior) کا کوئی بھی تصور ایسا نہیں جو انسان کے بارے میں کسی ما بعدالطبعیاتی ایمان پر قائم نہ ہو۔ ہیومن رائٹس کا جواز درحقیقت ’ہیومن‘ (خود کو قائم بالذات ہستی تصور کرنے والے فرد) کی فطرت کا تقاضا ہے نہ کہ عبد کی۔ (مزید تفصیل آگے آرہی ہے)