کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 223
دائرے کا ایک جز بن سکتا ہے۔ اسلامیت کو ’ایک حق‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام بہت سے نظامہائے زندگی میں سے ایک ہے اور یہ تمام نظام ایک مشترکہ عالمی نظام کا حصہ ہیں اور یہ عالمی نظام ’لبرل سرمایہ داری‘ کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ یہ تضاد سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایک طرف تو اسلامی تحریکات اسلام کے غلبے کے لئے ’ریاست‘ حاصل کرنا چاہتی ہیں لیکن ساتھ ہی وہ ہیومن رائٹس کو بھی مانتی ہیں جن کا اوّلین تقاضا ہی یہ ہے کہ ریاست خیر کے ایک مخصوص مذہبی تصویر کے بارے میں غیر جانبدار رہے، فیا للعجب ۔ پس ہمیں ہیومن رائٹس فریم ورک سے نکلنے والے تصورِ عدل اور حقوق کے حصول کی ہر گز جدوجہد نہیں کرنا چاہئے کہ اس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ عدل کا قیام اور استحکام عمل پذیر ہوتا ہے۔ یہ بات نہایت اچھی طرح ذہن نشین رہنا چاہئے کہ اسلامی نکتہ نگاہ سے ’خیر ‘ انسان کے ’حق‘ پر برتری رکھتا ہے یعنی اسلام اس ارادۂ خداوندی کی فوقیت کو ناقابل چیلنج خیر کے طور پر تسلیم کرتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن و سنت کی صورت میں نازل ہوا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جسے محفوظ کیا اور ائمہ امت و علماے عظام نے جسے عوام الناس تک منتقل کیا۔ چونکہ اسلام میں حقوق و فرائض کا تمام تر نظام اسی ارادۂ خداوندی سے ماخوذ ہے، لہٰذا ان حقوق کی تفسیر اور تنسیخ بھی قرآن و سنت کی روشنی میں ہی ہوتی ہے۔ ایک مسلمان اس بات کا مجاز نہیں کہ وہ ما وراے اسلام کسی مجرد حقوق کے نظام (جیسے ہیومن رائٹس ) کو نہ صرف یہ کہ قبول کرلے بلکہ اِنہی حقوق کے اندر اپنے مذہبی اور سیاسی تشخص کے بقا کی کوشش کرے۔ دعوتِ اسلامی ہرگز حقوق کی نہیں بلکہ خیر کی طرف بلانے کی دعوت ہوتی ہے اور تحریکاتِ اسلامی اسی خیر سے اخذ کردہ اقداری ترتیب کے مطابق معاشرتی صف بندی کی تنظیم نو اور اس تصورِ خیر کے تحفظ اور نظامِ اقتدار کو اس خیر کے تابع کرنے کے لئے میدان عمل میں آتی ہیں ۔ مضمون کے پہلے حصے میں واضح کیا گیا تھا کہ نہ تو وحی سے ماورا خیر کو پہچاننے کا کوئی ذریعہ ممکن ہے اور نہ ہی اسلام کے علاوہ یا باہر خیر کا کوئی وجود ہے، جس کی طرف ہم کسی کو دعوت دے سکیں یا جس کی بنیاد پر ہم کسی سے کوئی مکالمہ یا گفتگو کر سکیں ۔ ہم جب بھی غیر مسلم سے گفتگو کرتے ہیں تو صرف اور صرف اسے اسلام کی طرف دعوت ہی دے سکتے ہیں کہ یہی خیر