کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 222
1. دارالاسلام اور دارالکفر کو لبرل فریم ورک کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرنا، یہاں تک کہ اُنیسویں اور بیسویں صدی کے متعدد جید اور راسخ العقیدہ علماے کرام نے بھی ان لبرل آزادیوں کے فریب کا شکار ہوکر ہندوستان کو دارالاسلام قرار دیا اور یہی غلط فہمی آج بھی مسلم دانشوروں کو لاحق ہے کہ وہ کسی خطہ ارضی میں لبرل آزادیوں کی موجودگی کو نہ صرف یہ کہ دارالاسلام کے ہم معنی سمجھتے ہیں بلکہ اُنہیں دارالاسلام کی شرائط لازمی (pre-conditions) بھی گردانتے ہیں ۔
2. سوشلزم کے مقابلے میں لبرل ازم (جسے ہمارے ہاں عام طور پر سرمایہ داری کے نام سے پہچانا جاتا ہے) کے بارے میں حد درجہ نرم گوشہ اختیار کرنا، یہاں تک کہ اسلام کے معاشی و سیاسی نظام کو اُصولاً و عملاً لبرل فریم ورک کے ساتھ نتھی کردیا گیا جن کی واضح مثالیں اسلامی معاشیات اور اسلامی جمہوریت کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔ مگر یاد رہنا چاہئے کہ غلبہ اسلام کے تناظر میں لبرل ازم سوشل ازم سے بھی بڑی برائی ہے کہ سوشل ازم کا دشمنِ اسلام ہونا ہم پر عین واضح ہے مگر لبرل ازم کے چھپے ہوئے خطرے سے ہم واقف ہی نہیں ۔ لبرل ازم کے خلاف اسی نرم گوشے کا ہی یہ اظہار ہے کہ بالعموم علماے کرام نے انقلابی جدوجہد (ریاست کے اندر تعمیر ریاست) کے ذریعے تحریک ِخلافت کو کامیاب بنانے کے بجائے لبرل دستوری فریم ورک کے اندر مسلم قوم پرستانہ (لبرل نظام کے اندر مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی خاطر برپا کی جانے والی ) جدوجہد یعنی مسلم لیگ کی تحریک استخلاصِ وطن کا ساتھ دیا۔
جو مسلم مفکرین و علماے کرام دستوری قانونی جدوجہد کے علاوہ کسی اسلامی جدوجہد کے قائل نہیں ، وہ یا تو دستور او رہیومن رائٹس کی فراہم کردہ آزادیوں کی حقیقت سے واقف ہی نہیں ، یا پھر غلبہ اسلامی کے بجائے محض تحفظ ِاسلامی پر قانع رہنا چاہتے ہیں اور یا پھر غلبہ اسلامی کا محض کوئی نام نہاد تصور رکھتے ہیں ۔ یہ حضرات اس غلط فہمی کا شکار ہیں گویا ہیومن رائٹس و جمہوریت کے نام پر مذہب سے ماورا خیر کا کوئی ایسا آفاقی تصور اور دائرہ دریافت کرلیا گیا ہے جو اسلامی خیر کے فروغ کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے، یعنی اسلامی خیر بھی اس وسیع تر