کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 221
کے اپنے اظہارِ خیر کے حق کو بھی لازماً ماننا پڑے گا۔ اسلامیت کو محض بطورِ حق ماننے کے بعد امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا سرے سے کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا کیونکہ تعین خیر کو فرد کا حق سمجھنا اظہارِ ذات کے تمام طریقوں کو برابر ماننے کے مترادف ہے۔ اس حکمت ِعملی کے نتیجے میں ہم اسلام کو ایک غالب خیر مطلق کے بجائے کثیر الانواع تصوراتِ خیر میں سے ایک تصورِ خیر کے طور پر ’محفوظ‘ کرنے میں کامیاب ہوپاتے ہیں اور بالآخر اسلام کو لبرل سیکولر ریاست کے اندر سمو دینے کا باعث بنتے ہیں ۔[1] ہیومن رائٹس ہر گز غلبہ اسلامی کا ذریعہ نہیں بن سکتے کہ جس قدر اُصولِ آزادی کے اندر یہ اظہارِ اسلامیت کا موقع فراہم کرتے ہیں ، اسی قدر اظہار کفر اور فسق کو بھی محفوظ کرتے ہیں ۔
اس میں شک نہیں کہ ہیومن رائٹس کا فریم ورک اظہارِ مذہب کی بہت سی آزادیاں فراہم کرتا ہے مگر ان آزادیوں کے ذریعے محض ایک ایسا ’مذہبی دائرہ‘ محفوظ کیا جا سکتا ہے جس سے باہر مذہب کی پہنچ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجاتی ہے۔ ان مذہبی آزادیوں کی حقیقت نہ پہچاننے کی وجہ سے مسلم مفکرین و علمائے کرام بالعموم دو غلط فہمیوں کا شکار ہوئے :