کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 220
تصوراتِ خیر اور زندگی گزارنے کے دیگر طریقوں پر غالب نہیں کرسکتے، یہی ہیومن رائٹس کی حقیقت ہے۔
ہیومن رائٹس اور جمہوری ریاست بطورِ غلبہ اسلام کا ذریعہ: جو مفکرین اور علماے کرام ہیومن رائٹس اور جمہوری فریم کو غلبہ اسلام کا بہترین ذریعہ سمجھتے ہیں ، وہ درحقیقت ہیومن رائٹس کی غیر جانبداریت و آفاقیت کے فریب کا شکار ہیں اور وہ ہیومن رائٹس اور جمہوریت کو ہر قسم کے مقاصد وروح سے ماورا ایسا ٹیکنیکل (Technical) ڈھانچہ فرض کرتے ہیں جو ہر قسم کے مقاصد اور خیر کے حصول میں مدد گار ہوسکتا ہے۔ مگر یہ واضح ہے کہ ہیومن رائٹس و جمہوریت ہر گز بھی کوئی ایسا ریاستی ڈھانچہ فراہم نہیں کرتے جس کے ذریعے ’کسی بھی ‘ نظام زندگی اور مقصد کا حصول ممکن ہو سکے کیونکہ جس چیز کو یہ اُصولاً و عملاً ممکن بناتے ہیں ، وہ ا رادۂ خداوندی پر مبنی خیر کی نہیں بلکہ ’انسانی حق کی ہر خیر پر بالادستی ‘ ہے اور کفر و شرک کی یہ وہ شکل ہے جسے plurality of goods کے خوبصورت نام سے پیش کیا جاتا ہے نیز اس کے نتیجے میں جو اجتماعی نظام زندگی تشکیل پاتا ہے، وہ لبرل سرمایہ داری کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ چنانچہ ہیومن رائٹس فریم ورک کو ماننا دراصل اسلام کی مغلوبیت پر راضی ہوجانا ہے۔
اس بحث سے تحریکاتِ اسلامی اور ایسے علماے کرام کی حکمت ِعملی کی غلطی واضح ہو جانی چاہئے جسے اُنہوں نے دستوری حقوق کے تناظرمیں تحفظ ِاسلام کے لئے اپنا رکھا ہے۔ جب کبھی حکومتی مشینری یا بیرونِ ملک ریاستیں و ادارے تعلیمات و اظہارِ اسلام کے خلاف کوئی حکمت عملی اپناتے ہیں تو اس کی مخالفت ’مسلمانوں کے حق‘ کے نام پر کی جاتی ہے، مثلاً فرض کریں اگر ترک حکومت مسلم عورتوں کے اسکارف پہننے پر پابندی لگا دے توکہا جاتا ہے کہ ایسا کرنا تو مسلمان عورتوں کا حق ہے اور ہیومن رائٹس اس کی اجازت دیتے ہیں ۔ اگر یہ حکمت عملی حالت ِمغلوبی کے بجائے کسی علمی دلیل و نظرئیے کی بنا پر اپنائی گئی ہے تو پھر یاد رہے کہ اظہار اسلام کو ’خیر مطلق ‘ (absolute good) کے بجائے ہیومن رائٹس کی پناہ میں بطور ’ایک حق ‘ کے پیش کرنا در حقیقت نہ صرف یہ کہ اسلام کے نظام زندگی ہونے بلکہ اس کے خیر مطلق ہونے کا انکار بھی ہے کیونکہ اگر اظہارِ اسلام محض ایک فرد کا حق ہے تو پھر دوسرے افراد