کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 219
اُصولِ آزادی کے خلاف ہے اور اگر اُصولِ آزادی ہی ردّ کردیا گیا تو پھر میرا یہ حق کہ میں جو چاہنا چاہوں ، چاہ سکتا ہوں خود بخود فسخ ہوجائے گا۔ لہٰذالبرل جمہوری نظام میں ہر فرد ہیومن بننے پر مجبور ہوتا ہے، وہ آزادی کے سوا اور کچھ نہیں چاہ سکتا۔ فرد کی ہر وہ خواہش قانوناً اور اخلاقاً ناجائز اور قابل تنسیخ ہے جو اُصولِ اظہارِ آزادی کے خلاف ہویعنی جس کے نتیجے میں دوسروں کی آزادی چاہنے کی خواہش میں تحدید ہوتی ہو۔ پس واضح ہوا کہ درحقیقت خیر کے معاملے میں لبرل جمہوری ریاست بھی اتنی ہی راسخ العقیدہ (dogmatic) اور intolerant ہوتی ہے جتنی کوئی مذہبی ریاست کیونکہ دونوں ہی اپنے تصوراتِ خیر سے متصادم کسی نظرئیے کی بالادستی کو روا نہیں رکھتیں ۔ چنانچہ مشہور لبرل مفکر رالز (Rawls)[1]کہتا ہے کہ مذہبی آزادی کو لبرلزم کے لئے خطرہ بننے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، وہ مذہبی نظریات جو لبرل آزادیوں (یعنی فرد کے تعیین خیر وشر کے حق) کا انکار کریں ، ان کو عملاً کچل دینا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی وَبا کو ختم کرنا ضروری ہوتاہے۔[2]پس خوب یاد رہے کہ تمام تصوراتِ خیر کی مساوات و لایعنیت کا مطلب غیر جانبداری نہیں بلکہ مساوی آزادی بطور اصل خیر کا اِقرار ہے۔ یہ اسی کا مظہر ہے کہ پختہ (matured) جمہوری ریاستوں میں ارادۂ انسانی یعنی ’انسانی حق‘ کی بالادستی تمام تصوراتِ خیر پر غالب آجاتی ہے اور کسی مخصوص خیر کی دعوت دینا ایک لایعنی اور مہمل دعوت بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی ریاستوں میں آپ کسی مخصوص خیر (مثلاً مذہبیت) کے حصول کو ’بطورِ ذاتی حق ‘ کے اختیار تو کرسکتے ہیں مگر اس خیر کو دیگر