کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 218
ریاست جس نظامِ زندگی کو جبراً مسلط کرتی ہے وہ لبرل سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی ہے جس کے نتیجے میں دوسرے تمام نظام ہائے زندگی پر عمل کرنے کا دائرہ کار کم سے کم تر ہوتا چلا جاتا ہے۔[1] چنانچہ ہیومن رائٹس پر مبنی دستوری جمہوری ریاست کا یہ دعویٰ کہ اس نظامِ زندگی میں ہر فرد کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ ’جو‘ چاہنا چاہے، چاہ سکے ایک جھوٹا دعویٰ ہے کیونکہ فرد کو مساوی آزادی (یعنی سرمایہ دارانہ نظام زندگی ) ردّ کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا (اس نکتے کی علمی بنیاد جمہوریت کے حصے میں بیان کی جائے گی)۔ میں بحیثیت ِفرد اگر گوشت کھانا چاہتا ہوں تو چاہوں ، ہمہ وقت کھیلنا چاہتا ہوں تو چاہوں ، مگر میں ایسا کچھ نہیں چاہ سکتا جس سے اُصولِ آزادی یعنی دوسروں کا اپنی چاہت چاہنے اور اسے حاصل کرنے کا حق سلب ہوجائے۔ مثلاً میں یہ نہیں چاہ سکتا کہ کسی شخص کو شرعی منکر (مثلاً زناکرنے) سے روک دوں کیونکہ جونہی میں اپنی اس چاہت پر عمل کرتا ہوں تو اُصولِ آزادی کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور جمہوری ریاست مجھے ایسا کرنے سے بذریعہ قوت روک دے گی۔[2] چنانچہ فرد اپنے کسی مخصوص تصورِ خیر مثلاً اظہارِ مذہبیت پر ’بطورِ ایک حق‘ عمل تو کرسکتا ہے مگراسے ’الحق‘ سمجھ کر دیگر تمام تصوراتِ خیر پر غالب کرنے کا ارادہ نہیں کرسکتا کہ ایسا کرنا