کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 217
ایمان لائیں ۔ (فلسفہTolerance کی وضاحت کے لئے دیکھئے مضمون کا حصہ دوم) یہیں سے اس فریب کی حقیقت بھی کھل جانی چاہئے کہ لبرل جمہوری ریاست کوئی tolerant ریاست ہوتی ہے کیونکہ اپنے دائرۂ عمل میں یہ ریاست صرف اُنہی تصوراتِ خیر کو برداشت کرتی ہے جو اس کے اپنے تصورِ خیر (یعنی تمام تصوراتِ خیر کی مساوات و لایعنیت ) سے متصادم نہ ہوں ، اور ایسے تمام تصوراتِ خیرجو ہیومن رائٹس سے متصادم ہوں یا جو کسی ایک چاہت کو بقیہ تمام چاہتوں سے بالاتر سمجھ کر اس کی برتری کے قائل ہوں ، ان کی بذریعہ قوت بیخ کنی کردیتی ہے، جس کی واضح مثال طالبان کی ریاست ِاسلامیہ کا بذریعہ قوت خاتمہ ہے کہ یہ ریاست مخصوص مذہبی تصورِ خیر کی برتری کا دعویٰ کرتی تھی اور اسے دیگر تمام تصوراتِ خیر پر غالب کردینے کے لئے قائم کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی علاقے میں بسنے والے لوگ اپنی روایت کے مطابق ’ونی کرنے ‘ یا مذہبی بنیادوں پر ’ستی کرنے‘ کو خیر سمجھ کر اپنانا چاہتے ہوں تو ہیومن رائٹس قانون اُنہیں ان اعمال کی اجازت نہیں دیتا کہ یہ اعمال بنیادی انسانی حقوق کے فلسفے سے متصادم ہیں ۔ اسی طرح فرض کریں کہ ایک مسلمان لڑکی کسی کافر سے شادی کرنا چاہے تو ظاہر ہے اسلامی معاشرہ وریاست ہرگز اس کی اجازت نہیں دے گی، مگر چونکہ ہیومن رائٹس قانون اس فعل کو فرد کا حق قرار دیتا ہے، لہٰذا لبرل ریاست میں افراد کو اس فعل کی قانونی اجازت اور ریاستی سرپرستی حاصل ہوگی۔ اگر مسلم اجتماعیت اس لڑکی پر اپنا تصورِ خیر مسلط کرنے کی کوشش کرے گی تو لبرل ریاست ان کے خلاف کاروائی کرکے ان کی سر کوبی کرنے کی پابندہو گی۔ چنانچہ ہیومن رائٹس فریم ورک کے تصورِ خیر کے مطابق ’خیر‘ کی تعریف تو بدل سکتی ہے مگر خیر کی تعریف متعین کرنے کا ’انسانی حق‘ بہر حال ناقابل تبدیل ہے۔ چونکہ ہیومن رائٹس ’ فرد’ کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں نہ کہ کسی گروہ کے، لہٰذا لبرل جمہوری معاشروں میں سوائے فرد کے تمام اجتماعیتیں (مثلاً خاندان وغیرہ) لازماً تحلیل ہو جاتی ہیں اور جو واحد شے بچ رہتی ہے، وہ ہے اکیلا ’فرد ‘ یا صرف ایسی اجتماعیتیں جو افراد کی اغراض (self-interest) پر مبنی تعلقات سے وجود میں آتی ہیں ۔ درحقیقت لبرل معاشروں میں